
کیا خوبصو رت دن تھے، جب سالانہ حکومتی بجٹ آتا تھا تو سال بھر کے معاملات کو پاکستانی عوام ترتیب دے لیا کرتے تھے۔ سارا سال عوام کو بے فکری رہتی تھی۔ معیشت کا پہیہ اپنے تسلسل سے گھومتا رہتا اور لوگ سکون و اطمینان سے اپنا فیملی بجٹ بنا کر سادہ اورآسان زندگی گزار لیتے۔ نہ جانے کس منحوس کی نظر کھا گئی کہ پہلے پہل ششماہی، پھر سہ ماہی، پھر ہر ماہ اور اب تو ہر پندرہ دن کے بعد پٹرول کے نرخوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ آگ کے اِس جہنم میں غریب عوام کی ساری اُمیدیں خواہشیں بھی جل کر راکھ ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے منہ کا نوالہ چھوڑ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پٹرول کی مہنگائی سے اشیاء ضروریہ سمیت نقل و حرکت کے ذرائع بھی اُس کی پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں اور اُس کا سارا بجٹ درہم برہم ہو کے رہ جاتا ہے۔
پٹرول کے نرخوں میں اضافہ ہر پندرہ دن کے بعد عوام پر ایک نیا قہر بن کر ٹوٹ پڑتا ہے۔ پٹرول کے مہنگا ہونے سے پورا نظام زیروزبر ہو جاتا ہے۔ منافع خوروں کو عوام کو لوٹنے کا نیا بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے۔ نقل و حمل کے کرائے منہ زور گھوڑے کی طرح عوام کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ غریب عوام کا بجٹ گڑبڑ ہو کر رہ جاتا ہے اُس کی سب سے بڑی ”سفری عیاشی” موٹر بائیک کا ٹینک پٹرول مہنگا ہونے سے اُس کی پاکٹ کا ایک بڑا حصہ کھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو پاکستان کے ایک نئے ”عجوبے” کا بارہا تعارف ہوا ہو گا ، لوگ اپنی بائیکوں کو زمین پر لٹا کر ”جموں راہ” کرتے یعنی دائیں بائیں گھماتے جھٹکے دیتے نظر آتے ہیں کہ شاید کہیں کونے کھدرے میں پٹرول کا ”ماسا تولہ” نکل آئے اور وہ اپنی منزل تک جا سکیں۔ ایسا نظارہ صرف میرے پاکستان میں ممکن ہے۔ نہ جانے یہ کیا بدقسمتی ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ابھی تک معاشی، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی استحکام سے فیض یاب نہیں ہو پائے۔ نہ جانے کیا یہ بدقسمتی ہے کہ قدرتی ذخائر سے مالا مال مملکت اسلامیہ پاکستان کے عوام ابھی تک غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے کی اذیت سے بے حال ہیں۔ گزرنے والا ہر پل اپنی وحشت ناکی سے ان کی زندگی میں ہلچل مچا رہا ہے اور وہ تین وقت کی روٹی چھوڑ کر دو وقت کی خوراک میں اپنی زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کی کوشش میں ”جُتے” ہوئے ہیں مگر افسوس اُن کوکوئی اُمید کی کرن نظر نہیں آ رہی۔ نہ کوئی ”مسیحا” اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ نہ کوئی ”حضرت خضر” ان کی راہنمائی کرتا ہے کہ سیاست، غلاظت میں اور راہبری راہزنی میں بدل گئی ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں عوامی لوٹ مار میں شریک ہی نہیں بلکہ پوری کی پوری ذمہ دار بھی ہیں اور حصہ دار بھی۔
بدقسمی ہے کہ یہاں ہمیشہ ”اُلٹی گنگا” بہتی ہے۔ عالمی منڈیوں میں جب تیل کی قیمتیں کم تر ہو جاتی ہیں تب بھی پاکستان میں اُس کا ریلیف عوام کو نہیں دیا جاتا۔ تنگ آمد بجنگ آمد ، جب لوگ بہت زیادہ احتجاج کرتے چیخ و پکار کرتے یا سوشل میڈیا پر طوفان اٹھاتے ہیں تو ”اونٹ کے منہ میں زیرہ” چند روپے سستا کرنے کا ”لولی پاپ” دے کر اگلے پندھواڑے میں قیمت ڈبل کرکے عوام کے ”کس بل” نکال دیتے ہیں۔ شاید اس کو ہی کہتے ہیں کہ ”ہنگ لگے نہ پھٹکڑی، تے رنگ آئے چوکھا” عوام کو تگنی کا ناچ نچا کے شاید بیوروکریسی عرف ”بُرا کریسی” اپنے بیمار اذہان کو تسکین دیتی ہے۔
چین ہمارے بعد آزاد ہوا، آج کہاں پر ہے کہ اُس نے روس ،امریکہ جیسی سپر پاور کو وہ رگڑا دیا ہے کہ آج وہ ایک تیسری عالمی طاقت کے طور پر خود کو منوا رہا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا بازو تھا، ابھی کل کی بات ہے 16دسمبر 1971ء آج وہ کس مقام پر کھڑاہے۔ بدقسمت پاکستان کو یہ سیاسی ”جونکیں” اس طرح سے عوام کا خون نچوڑ رہی ہیں کہ دو قطرے خون بھی چھوڑنے کو تیار نہیں کہ اُن کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا جو طوفان آتا ہے اُس میں بچے کے پیمپر سے لے کر خوراک کے ہر نوالے تک پہنچ عوام کی رسائی سے باہر ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر پندرہ روز کے بعد مہنگے پٹرول کا ”کوڑہ” عوام کی پیٹھ پر تسلسل سے مارا جاتا ہے کہ اُن کے ضبط، یا رانے کا شاید کسی کو ”امتحان” مقصود ہے۔
جیسے عوام ویسے حکمران، شاید یہ ہماری ”بداعمالیاں” ہی ہیں جن کی وجہ سے آج ہم اِس اذیت سے دوچار ہیں۔ فاقہ کشی ہو رہی ہے، لوگ غربت سے بے حال ہیں، کم حوصلے والے پھندہ لے کر نہروں میں کود کر خود کشیاں کرکے اپنی جان تو چھڑا لیتے ہیں مگر اپنے پیاروں کو بے رحم موج کے تھپیڑوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ریاست واقعی اگر ماں ہوتی ہے تو اُس کو عوام کی بے چارگی، لاچاری، غربت کیوں نظر نہیں آتی۔ کیوں وہ اپنے ”اللے تللے” چھوڑ کر عوام کو ریلیف نہیں دیتی۔ ایسے پٹرول کے ذخائر کو کیا ہم نے چاٹنا ہے جن کی موجودگی میں عوام مہنگائی سے تنگ آ کر اسی پٹرول سے اپنی جان لیں۔ خدارا ! عوام پر رحم کریں، پٹرول کی قیمتیں کم کریں، عوام کو غربت کی لکیر سے بیشک نیچے ہی سہی زندہ تو رہنے دیں۔ پٹرول کے نرخوں کو جب آگ لگتی ہے تو وہ بہت کچھ جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ خدارا ! پٹرول سستا کریں کہ معیشت کا پہیہ چل سکے اور غریب عوام کو مہنگائی کی تکلیف سے ریلیف مل سکے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
٭









