سیلاب۔۔۔ عذاب یا احتساب ؟؟؟… رانا محمد ابراہیم نفیس


جب ہم فطرت کے خلاف پنجہ آزمائی کریں گے تو جواب آن غزل پھر کلائوڈ برسٹ ہی ہوں گے، پہاڑ اپنی جگہ سے سرکیں گے، زمین پھٹے گی، پانی باہر اُبل پڑے گا، آسمانی بجلی نشیمن پر گرے گی، ٹنوں وزنی پتھر فوم کے ٹکڑوں کی طرح پانی کی سرکش موجوں سے اٹھکیلیاں کرتے کئی منزلہ پختہ گھروں کو مٹی کے گھروندوں کی طرح مسمار کرتے گزرتے جائیں گے۔ اوپر سے طوفانی بارشیں پھر زلزلہ کے آفٹر شاک۔ گائوں کے گائوں سیلاب کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں آ گئے، ہزاروں انسانی ہلاکتیں، لاتعدد مویشی بھیڑبکریاں ، گائیں بھینسیں اِس سیلاب کی نذر ہو گئیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ آج پہاڑ علاقوں میں قیامت کے منظر قیامت سے پہلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ الامان الحفیظ یہ سیلاب ہے، عذاب ہے یا ہمارا احتساب؟؟؟

یہ ہمارے اعمال ہیں، کرتوت ہیں، اخلاقی گراوٹ ہے، دین سے بے رغبتی ہے، حقوق العباد کی پامالی ہے، اللہ سے بغاوت کا نتیجہ ہے، لوٹ کھسوٹ، راہزنی، بھتہ خوری، شراب کے پرمٹوں کا اجرائ، زناکاری میں آسانی، جسم فروشی کے اڈوں کی بہتات، زخیرہ اندوزی، پوش علاقوں میں ننگی ڈانس پارٹیاں، مسجدوں کی مسماری سے لے کر کون سے ایسے کرتوت ہیں جو ہماری قوم میں ”بدرجہ اتم” موجود نہیں ہیں۔ پہلی قومیں تو ایک گناہ کی پاداش میں زمین سے اُٹھا کر اوپر سے پٹخ کر فنا کر دی جاتی تھیں۔ یہ تو رحمة اللعالمین نبی کریمۖ کی دُعا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی گناہوں کی دلدل میں گوڈے گِٹے تک دھنس چکے ہیں۔ تو کیا پھر بادِنسیم کے ٹھنڈے جھونکے آئیں گے یا شبنم کے پھول کھلیں گے۔ آسمان ہی پھٹے گا نا ۔۔۔ لینڈ سلائیڈنگ ہی ہو گی نا۔۔۔ زلزلے ہی آئیں گے نا۔

ہمارے اخلاقی انحطاط کی ایک ادنیٰ مثال دیکھیں کہ گوجرانوالہ ٹیچنگ ہسپتال میں ایک صاحب ثروت انسان نے کروڑوں کی مشینری آپریشن تھیٹر کے لیے وقف کی۔ راتوں رات کوئی غیرمرائی مخلوق سلیمانی ٹوپی پہن کر چوری کرکے لے گئی۔ مزید لطف کی بات ہے جب بھید کھُلا تو پھر وہی کروڑوں کی مشینری راتوں رات واپس بھی آ گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے وہاں کا سیکورٹی نظام کیسے بے بس ہوا؟ کیمرے کیوں بند ہوئے؟ مشینری تو واپس آ گئی مگر دستانہ پوش چور کو کوئی نہیں پکڑ سکا۔ وزیراعظم سکیم فیز ٹو 1011 لیپ ٹاپ لاپتہ بعد ازاں 784ریکور 227ابھی تک غائب ہیں۔ یہ 26اگست ”دنیا ”نیوز کی خبر ہے۔ محض 30روپے کے جھگڑے پر دو نوجوان بھائیوں کو سرعام بلے مار مار کر موقع پر قتل کر دیا گیا۔ چند دن پہلے کی بات ہے۔ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ یہ تو چند ادنیٰ مثالیں ہیں۔ پورے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے ہم کرپشن میں کتنے لتھڑ چکے ہیں تو پھر یہی ہو گا نا جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہم اللہ سے پناہ چاہتے ہیں۔

جب ہم دریائوں کو تجاوزات کرکرکے نہروں میں اور نہروں کو تجاوزات کی بھر مار سے ندی نالوں تک سکیڑکر رکھ دیں گے تو پھر جب فطرت حرکت میں آئے گی تو اپنے راستے میں مزاحم بلندوبالا ہوٹلوں، گیسٹ ہائوسز، ڈھابوں، مارکیٹوں کو تہہ و بالا نہیں کریں گی تو اور کیا کریں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دریائوں پر عشرت کدوں کی تعمیرات کی اجازت کس قانون کے تحت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی متوسط طبقہ کے ہوٹل نہیں ہیں۔ اشرافیہ کی کرپشن چھپانے کے لیے تعمیرات ہیں جب قیامت گزر جاتی ہے اَشک شوئی کے لیے چند ایک چھوٹے موٹے ہوٹل،موٹل مشینری لے کر گرا دیئے جاتے ہیں مگر وڈیروں، سیاستدانوں، جاگیرداروں کے عشرت کدوں ک طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا کہ یہ کثیرالمنزلہ عمارت کس کی ہے۔ یہ ہے ہمارا دوغلا پن۔ یہ تو تھا ہمارے اجتماعی اخلاقی، انسان زوال کا نوحہ جو بالائی علاقوں شمالی علاقہ جات میں تباہی بربادی کا سبب بنا۔ درخت لگانے کی بجائے ٹمبرمافیا نے پہاڑوں کی چوٹیاں ننگی اورگنجی کر دی ہیں، جہاں لاکھوں درخت لگنے تھے وہاں کروڑوں درخت بے رحمی سے آج بھی کاٹے جا رہے ہیں۔ انسان خود اپنے ہاتھوں سے جس ٹہنی پر بیٹھا ہے اُسی پر آری چلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین بُھربھری ہو جاتی ہے۔ تھوڑے سے ارتعاش سے پہاڑ سرکنے لگتے ہیں اور پھر جب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیئر پگھلتے ہیں ، اوپر سے کلاوڈ برست ہوتا ہے تو پانی منہ زور گھوڑے کی طرح ہر چیز کو روندتا چلا جاتا ہے۔ یہ سب مکافاتِ عمل ہے ۔ یہ تو تھا بالائی علاقوں میں تباہی اور بربادی میں انسان کا اپنا کردار جو آج ہم اس آزمائش ے دوچار ہیں۔

ترکش کہاوت ہے ”دریا ایک سانپ ہے اور دریاکے پتھر اس سانپ کے انڈے ہیں اور دریا کبھی بھی اپنے انڈوں کو سینچنے کے لیے آ سکتا ہے۔” تو دریائوں کی موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے، انڈیا کو تو الزام دینا بہت آسان ہے اور یہ جو ہم دریائے راوی کے پیٹ پر لات مار کر ہزاروں ایکڑ سرسبز و شاداب فصلوں کو بنجر کرکے وہاں رہائشی ہائوسنگ سکیمیں بنائیں گے تو کیا دریا اپنا ”انتقام” نہیں ہے ۔ کُھلی آنکھوں سے دیکھیں دریائے راوی کی شور مچاتی لہریں رہائشی سکیموں کو تہس نہس کرکے کیسے اپنا حق حاصل کرنے پہنچ گئیں ہیں۔ اربوں کی اراضی ”ٹکے ٹنڈ” ہو گئی ہیں مگر ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جس کے نصیب میں صرف ہاتھ ملنا ہی باقی رہ جاتا ہے۔ لینڈ مافیا آنکھوں میں دُھول جھونک کے آسانی سے اپنا شکار کرکے آگے نکل جاتا ہے تو ہم کھوج لگانے لگ جاتے ہیں۔ N.O.C کس نے دیا، کب دیا، کس کو دیا، کیوں دیا، لٹ جاتی ہے قوم یہ سیلاب یا غذاب نہیں بھائی یہ قدرت کی طرف سے احتساب ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
فاعتبرویا اولی الابصار

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں