چینی نکتہ چینی ….. رانا محمد ابراہیم نفیس

آج کل پورے پاکستان میں زور و شور کے ساتھ چینی کی بلیک میلنگ عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ چوری چُھپے 200روپے کلو میں ملنے پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ پوری دنیا چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ چینی سفید”پوائزن” یعنی زہر ہے۔ ایک ہماری قوم ہے کہ وہ شور شرابا کرکرکے بے حال ہو رہی ہے۔ حالانکہ اُن کو تو حکومت کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ وہ اُن کو میٹھے زہر سے بچانے کی ”عوامی خدمت” میں مصروفِ عمل ہے۔ خود چین والے چینی سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن ایک ہم ہیں چینی کی تلاش میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں جو ”میٹھے” سے مر جائے اُسے زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر بھی عقل کے ”اندھوں” کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومتِ وقت اُن کو میٹھا کھا کے مرنے سے بچانے کا جتن کر رہی ہے ”ناشکری قوم” بجائے احسان ماننے کے ہماری عوام ہے کہ صبح و شام چینی پر نکتہ چینی کر رہی ہے۔ ”دروغ بر گردن راوی” لوگ اپنی توپوں کا رُخ حکمرانوں کی طرف نہ جانے کیوں کر لیتے ہیں کہ جناب ہمارے عزت مآب صدر محترم کتنی شوگرملوں کے مالک ہیں۔

جناب شریف خاندان بھی بے شمار شوگر ملوں کے مالک ہیں، جناب جہانگیر ترین کی شوگر ملوں کا بھی حد حساب نہیں ہے۔ شہید جنرل اختر عبدالرحمان کے صاحبزادے بھی شوگر مل اونر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی نامور سیاستدان، بزنس مین جو یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ تو قوم کی خدمت ہی کر رہے ہیں نا۔ اب آپ خود غور فرمائیں اگر اِن ”عوام دوست” سیاستدانوں نے یہ شوگر ملیں نہ لگائی ہوتیں اور ہمیں یہی چینی ،ڈیزل، پٹرول، ایل این جی کی طرح امپورٹ کرنا پڑتی ۔ عوام کو ”نانی” یاد آ جاتی۔ لوگوں کو راشن کارڈ کے ذریعے لائنوں میں لگ کر چینی ملتی تو پتہ چلتا ۔

قوم کو شوگر مل مافیا اور دوسرے لفظوں میں چینی مافیا کا شگرگزار ہونا چاہیے کہ چینی مل تو رہی ہے ماشاء اللہ ہمارے پیارے اسلامی جمہوری ایٹمی ملک میں کسی چیز کی کوئی کمی ہے جو چینی مہنگی ہونے کا رونا رویا جائے۔ اب اگر چینی ملک میں فالتو ہو جائے ہم نے کیا اس کا ”اچار” ڈالنا ہے۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے کی خاطر قربانی دیتے ہوئے اگر شوگر مل مالکان حکومتی ”آشیرباد” یعنی باقاعدہ کاغذی کارروائی کرکے قانونی طور پر چینی کو ایکسپورٹ کرکے ”منٹوں” میں کھربوں روپے کا فائدہ حاصل کر لیتے ہیں تو آخر اس میں ”مضائقہ” ہی کیا ہے۔ انہوں نے چینی سمگل تو نہیں کی نا۔ رات کے اندھیرے میں ”ڈنکی” تو نہیں لگائی۔ آخر کیا بُرا کیا ہے جو اتنا واویلا مچایا جا رہا ہے اور شوگر مل مالکان کو مافیا کہہ کر بدنام کیا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے؟؟؟

یقین کریں ہمیں تو بالکل بھی ”پی اے سی” پبلک اکائونٹ کمیٹی میں آڈیٹر جنرل کی پیش کی گئی رپورٹ کی ”صحت” پر یقین نہیں آرہا کہ جہانگیر ترین کی ملوں نے 15ارب روپے،وزیراعظم کے بیٹوں نے 3ارب 61کروڑاور دیگر ”الابلا” نے 1100ارب روپے کی چینی 21ممالک کو اِن 67شوگر ملوں نے برآمد کی یعنی ایکسپورٹ کی۔ اور رپورٹ کے مطابق یہ ڈرامہ پچھلے 10سال سے چل رہا ہے۔ اور سارے شوگر مل مالکان فیض یابی کے اس تالاب میں ڈبکیاں مار رہے اور انجوائے کر رہے ہیں۔ یعنی کبھی برآمد اور کبھی درآمد۔ سمجھ نہیں آئی تو سادہ لفظوں میں کبھی پہلے ایکسپورٹ اور پھرامپورٹ، یعنی ”عجب کرپشن کی غضب کہانی” بندہ پوچھے بھئی کاروبار اور کس کو کہتے ہیں یعنی حرکت میں برکت اسی چیز کا ہی تو نام ہے۔

ہمارے ملک کا بھی عجب حال ہے جو چیز شارٹ ہوتی ہے، ساری قوم اُسی کے حصول میں لگ جاتی ہے۔ بندہ پوچھے بھئی چینی نہیں ملتی تو گڑ استعمال کر لو، گڑ نہیں ملتا تو شکر استعمال کر لو اور اگر کچھ بھی نہیں ملتا تو صبر شکر کر لو کہ اِس کا اجر تو آپ کو اللہ سے ضرور ملے گا نا۔ ۔۔ مگر ایک بات کا آپ ”پکا یقین” رکھیں کہ حکومت آپ کی پریشانی سے بخوبی واقف ہے اور وہ ”پباں پار” زور لگا رہی ہے کہ شوگرمافیا کو ”نتھ” ڈال سکے تبھی تو آئے روز گوداموں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ مجسٹریٹوں کی ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ”بروقت” حکومتی اقدامات سے بڑے بڑے چینی کے ”ڈشکرے” ہول سیل ڈیلر دکانیں بند کر گئے ہیں۔ مگر آپ نے سب سے پہلے ”گھبرانا بالکل” نہیں۔ پچھلا دروازہ کھلا ہے وہاں سے آپ آسانی کے ساتھ 200روپے کلو یا پلس سے چینی لے کر اپنا ”لُچ” تَل سکتے ہیں۔

ہم تو شوگر ڈیلر ایسوسی ایشن کے اس مطالبے کی بھی حمایت نہیں کرتے کہ اگر ہمیں 166روپے کلو چینی ملے گی تو ہم حکومتی ریٹ 173روپے کلو فروخت کریں گے۔ بندہ پوچھے یہ تمہارا ”سردرد” ہے ، حکومت کا نہیں اُس کو تو فقط آڈر کرنا ہے اور ”حاکم حُکم مرگِ مفاجات” یہ تو ماننا ہی پڑے گا اور یہ جو آپ شوگر مل مالکان پر الزام لگا رہے ہیں نا۔۔۔ اس سے باز آ جائیں جو حکم دیا گیا ہے بس اُس پر عمل کریں۔ اور ویسے عوام کو بھی کچھ خوفِ خدا کر لینا چاہیے کہ آپ چائے کے کپ میں ایک چمچ چینی ڈالیں، زیادہ مہنگی لگے تو آدھے چمچ سے گزارہ کر لیں ۔ پھر بھی مشکل ہو تو بغیر چینی چائے کے ”مزے” کے عادی ہو جائیں تو پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد خودبخود ”آدھی” ہو جائے گی۔۔۔ ہے نا قیمتی نکتہ تو چینی پر نکتہ چینی چھوڑیئے اِس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔ آئی بات سمجھ شریف میں کہ نہیں ؟؟؟
٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں