
آزادی کتنا خوبصورت تصور اور سہانا سپنا ہے ۔ یعنی بندھن سے ،قید سے آزادی ،اظہارِ رائے کی آزادی، اپنا دیس ، اپنا وطن دھرتی ماں جو سارے غم دُکھ اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ یہ آزادی ہمیں سستی نہیں ملی لیکن آزادی کی کوئی قیمت بھی نہیں ہوتی۔ ہجرت کے اس خونی سفر میں ایک دنیا اِدھر سے اُدھر ہوئی۔ لاکھوں گاجرمولی کی طرح کٹے، ہزاروں دوشیزائیں نہروں، تالابوں میں کود کر اپنی عزت تارتار ہونے سے بچا گئیں۔ سہاگنیں اپنے سہاگ سے محروم ہوئیں، والدین اپنے جگرگوشوں کو کھو چکے ۔ آج بھی بدقسمتی سے ہجرت میں ناکام رہ جانے والی بے شمار مسلمان عورتیں ہندوئوں اور سکھوں کے پنجے میں یا تو زندگی کے عذاب سے نجات پا چکی ہیں یا اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی ہیں۔ ہجرت کے اِس سفر میں شہید ہو جانے والے لاکھوں مسلمانوں کے خون کی کھاد سے آج بھی بارڈر پار لہلہاتی فصل خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ تب کہیں جا کر یہ پیارا وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ قوم کو اٹھہترواں یومِ آزادی مبارک ہو۔
آزادی کے اِس عمل میں خاندانی امیر فقیر ہو گئے اور فقیر جعلی کلیموں سے امیر ہو گئے۔ گمان تو یہ تھا کہ آزادی کے بعد دُودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی۔ عوام خوشحال ہوں گے، اُن کی نسلیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو کر مملکت پاکستان میں تمام تر حقوق کے ساتھ سر اُٹھا کر سکھ چین کی زندگی بسر کریں گے۔ مگر ”اے بسا آرزو کہ خاک شد” اٹھہترسال بعد بھی آج کا گریجوایٹ نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے مایوس ،اپنی ڈگریاں جلا کر بلکہ اپنا ”دل جلا کر” فکر معاش میں ملک سے بھاگنے کی کوشش میں ہے۔ اس کے لیے اُسے ”ڈنکی” لگانی پڑے، پہاڑوں کی چوٹیاں عبور کرنا پڑیں، صحرا کی ریت چھاننا پڑے، ٹرالوں میں چھپ کر سفر کرنا پڑے یا پھر کشتیوں میں سوار ہو گر سمندر کی خوراک بننا پڑے۔ کیا یہ پاکستان ایک غریب کا پاکستان ہے؟یہ کیسی آزادی ہے کہ اس کی ایک لکیر کے ایک طرف دو وقت کے نوالہ کے لیے ”کولہو کے بیل” کی طرح مشقت کرتے انسانوں کا جم غفیر ہے اور دوسری طرف اشرافیہ کے لیے پینے کا پانی فرانس سے اور اُن کے کتوں کی خوراک امپورٹ ہو رہی ہے۔
اگر آزادی ہو تو ۔۔۔تو گھٹن لڑائی مار کٹائی کیوں؟ ظلم زیادتی لوٹ کھسوٹ کا کاروبار کیوں؟ عدالتی نظام عدل پر سوالیہ نشان کیوں؟ مقدمات کا فیصلہ 25سال بعد کیوں؟ عدم انصاف کا واویلا کیوں؟ خودکشیوں کا تسلسل خود سوزیوں کا دھواں کیوں؟ گرانی کا جّن آزاد کیوں؟ فراڈ ظلم قبضہ گروپوں کی حکمرانی کیوں؟ ٹیکسوں کی بھرمار سے غریب کی زندگی عذاب کیوں؟ بلوں کی ادائیگی کے لیے لائنوں میں لگنے کی ذلالت کیوں؟ حقوق انسانی کی پامالی کیوں؟ آدھی رات کی دستک کیوں؟ تھانوں میں تشدد کیوں؟ ادویات میں دو نمبری کیوں؟ ملاوٹ کا کاروبار کیوں؟ ڈاکٹروں میں انسانی ہمدردی ناپید کیوں؟ دولت کی ہوس میں انسانی اعضاء کا بیوپار کیوں؟ ناجائز ذخیرہ اندوزی کی اجازت کیوں؟ امن کی زبوں حالی کیوں؟ گینگ ریپ، اغوا، ڈاکاز نی کی کھلی چھٹی کیوں؟ گدھوں، کتوں ، مردہ مرغیوں حتیٰ کہ بلیوں کا گوشت عوام کی خوراک کیوں۔ کیوں۔ کیوں؟
اگر آزادی ہو تو ۔۔۔سرکاری ہسپتالوں میں بیمار کی زبوں حالی کیوں؟ لوڈشیڈنگ کا عذاب کیوں؟ بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار کیوں؟ شریف شرفاء کا تھانے میں جانے سے ہچکچانا کیوں؟ سودخوری، بھتہ خوری کی اجازت کیوں؟ جہاد کے فلسفہ سے انکار کیوں؟ مادر پدر آزادی کا اصرار کیوں؟ یہودیوں سے دوستی کا اقرار کیوں؟ بنیاد پرستی سے احتراز کیوں؟ دینی شناخت سے گریز کیوں؟ اشیائے ضروریہ کی گرانی کیوں؟ انسانی خون کی ارزانی کیوں؟ چینی مافیا کی بالادستی کیوں؟ سیمنٹ مافیا کو کھلی چھٹی کیوں؟ ڈرگ مافیا کو موت بانٹنے کی اجازت کیوں؟ سٹیل مل کی نجکاری کا فریب کیوں؟ قومی اثاثوں کی نیلامی کیوں؟ معاشی اقتصادی سیاسی گراوٹ کی بدنامی کیوں؟ سرکاری منصوبوں میں ”چورکُتی” کا ایکا کیوں؟ عوامی منصوبوں میں ملی بھگت کا ٹیکہ کیوں؟ جوڈیشری اور بار کا شریکہ کیوں؟ انصاف کے حصول میں خوار عوام کو عدالتی برآمدوں میں دھکے کھانے کی سزا کیوں؟غریبوں کے چوباروں کی مسماری کیوں؟ اشرافیہ کے غیرقانونی ”ولاز” کی تیاری کیوں؟ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرنے کی ”عیاری” کیوں؟ قاضی قضاء کو آنکھیں بند کرنے کی ”بیماری” کیوں؟
اگر آزادی ہو تو ۔۔۔نصف سے زائد عرصہ ملک عزیز پر ”وردی” کی حکمرانی کیوں؟ سیاسی قیادت کی جبری ملک بدری کیوں؟ منتخب ورزائے اعظم کا ”دھڑن تختہ” کیوں؟ خودساختہ دھرنوں سے ”سیاسی” عدم استحکام کی منصوبہ بندی کیوں؟ دھرتی ماں کے سینے پر ناپاک قدموں کی چاپ کیوں؟ پاکستانی شہریوں کا غیرملکیوں کے ہاتھوں قتل عام کیوں؟ وطن عزیز کی سرحدوں کی پامالی کیوں؟ جرأت رندانہ کی زبوں حالی کیوں؟ عوامی مینڈیٹ کی پامالی کیوں؟ غریبوں کو وعدوں کا ”لولی پاپ” کیوں؟ مجبور بے بس عوام کا تماشا کیوں؟ سیاسی لیڈروں کی خاموشی بے حسی کا سناٹا کیوں؟ ذاتی مفاد و مراعات کے لیے اپوزیشن اور حزبِ اقتدار کا ”ایکا” کیوں؟ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف کی ”پکڑن” کیوں؟ قوم کی اقتصادی ”جکڑن” کیوں؟ کیا یہ وہی آزادی ہے جس کا قوم نے خواب دیکھا تھا، ہم نے تو کچھ اور طے کیا تھا اوروہ کیا طے کیا تھا۔ آئیں دیکھتے ہیں اورپھر سوچیں کہ کیا واقعی یہ آزادی ہے ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے”۔
وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہوا تھا
وطن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہوا تھا
بوقت ہجرت قدم اٹھیں گے جو سوئے منزل
تو بیچ رستے میں دم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا
چہار جانب بہار آئی ہو گی لیکن
بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا
تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کرکے
نئے وطن کو وطن کہیں گے یہ طے ہوا تھا
خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے
خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا
بغیر تخصیص پست و بالا ہر اک مکان میں
دیئے مساوات کے جلیں گے یہ طے ہوا تھا
کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے
عوام سے اذن عام لیں گے یہ طے ہوا تھا
تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے
جو طے نہیں ہے وہ طے کریں گے یہ طے ہوا تھا









