
ریاست تو ماںجیسی ہوتی ہے اور ماں تو اپنی اولاد کے لیے جان تک نچھاور کر دیتی ہے، یہ کیسی سنگ دل سفاک بے حس ریاست ہے جو اب تک کئی جانیں لے چکی ہے۔ خود کشیاں ہو رہی ہیں، لوگ تیزاب پی کر مر رہے ہیں، لوگ چیخ چلا رہے ہیں۔ نہروں میں کود کر جانیں دے رہے ہیں، اپنے گردے بیچ رہے ہیں، کس لیے کہ وہ اپنے بجلی کے بل ادا کر سکیں، زندہ رہ سکیں۔ گرمی میں اپنے بچوں کے لیے پنکھا چلا سکیں اور پھر جب مہینے کے آخرمیں بجلی کا بل آتا ہے تو اُن کی ہوش اڑا دیتا ہے۔ 200یونٹ تک تو گزارہ تھا مگر ایک یونٹ اضافے سے وہ بل چار گنا ہو جاتا ہے اس ساری گندی گیم اور شرمناک ظلم میں اہم ترین کردار خود واپڈا کے میٹر ریڈر اور ریڈنگ کرکے ”مرے کو مارے شاہ مدار” قوم کو نفسیاتی مریض بنا رہے ہیں۔
بیوروکریسی کو ”بُرا کریسی” کا نام ایسے ہی کسی دل جلے نے دیا تھا۔ سمجھ نہیں آ پا رہی کہ جو لوگ اپنی دانش، تعلیم، عقل و فہم، ذہانت و فطانت کو محض ایک غریب آدمی کی زندگی کو مشکل تر بنانے اور اُس کو بجلی یونٹ کے نام نہاد سلیب ”درجہ بندی” کرکے غریب آدمی کے منہ سے نوالہ چھین رہے ، اُن کا انسانیت کے ساتھ آدمیت کے ساتھ کوئی تعلق بھی بنتا ہے۔ شاید اللہ نے ا ِس مخلوق کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ جائو اور پاکستان کے غریب عوام کو زندہ درگور کر دو کہ وہ اپنے بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لعنت ہے ایسی قابلیت پر ، تُف ہے ایسی سوچ پر جو رحم کرنے کے بجائے اپنی گھٹیا سوچ کی ”کند چھری” سے بے رحمی کے ساتھ بجلی کے بلوں کی صورت میں غریب آدمی کا معاشی قتل عام کرے۔
پاکستان جیسی اسلامی ایٹمی قوت ہو اور اس کے عوام روزبروز غربت کی لکیر کی دلدل میں مسلسل دھنس رہے ہوں تو بتایئے پھر اِن سیاسی پارٹیوں، اِن عوامی لیڈروں ، اِن ”جگادری” سیاستدانوں کی ضرورت ہی آخر کیا ہے ، جو اپنی اپنی باری باری پر بطور اپوزیشن غریب عوام کے مفاد کے لیے بڑھ چڑھ کر نعرے مار کر سیاسی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ اقتدار میں آ کر ”گرگٹ” کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ یاد کریں ذرا کس نے کہا تھا کہ جب بجلی مہنگی ہوتی ہے تو زیراعظم ۔۔۔ہے؟ کس سابق حکمران نے کہا تھا کہ بجلی کے بل ادا نہ کرو۔ یہ کس نے کہا تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے بجلی استعمال کرو مگر بل نہ آئے۔ ابھی کل کی بات ہے کس نے کہا تھا آپ کے بجلی کے بل کی ادائیگی حکومت کرے گی تو کیا یہ سارے سیاسی وعدے محض غریب عوام کو اُلّو بنانے کے لیے تھے۔ ایک باری تیری تے دوسری واری میری۔ جناب کے تو ”پوں بارہ” ہو گئے اور غریب بجلی کے بل ادا کرتے کرتے مر گیا نہیں ”وڑھ” ہی گیا مگر کسی کے کان پر ”جوں” تک نہیں رینگی۔
اَت خدا دا ویر، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کچھ خدا خوفی کریں یقین رکھیں اور نوٹ کر رکھیں اگر حکمرانوں کے چال چلن ایسے ہی رہے، عوامی جذبات احساسات، مجبوریوں اور اُن کی تکلیفوں کو روندتے ہوئے اپنے چلن نہ بدلے تو ایک خاموش، خوفناک طوفان آئے گا جو غریب انسان کے اندر بھڑکتے ہوئے بے چارگی، غربت اور دو وقت کی روتی کے حصول کی ناکامی کا لاوا جب پھٹے گا ”خس و خاشاک” کی طرح سب جلا کر بھسم کرکے رکھ دے گا اور یقین مانیں ”بُھس” کے اِس ذخیرے کو آگ کے الائو میں بدلنے کے لیے محض کوئی معمولی سی وجہ ہی کافی ہو گی اور عین ممکن ہے اگر ابھی بھی بجلی کے بلوں کے ذریعے غریب عوام کے معاشی قتل عام کو روکا نہ گیا تو شاید عوامی غیض و غضب کا یہ ”گلیشیر”پھٹ پڑے اور بڑے بڑے سیاسی مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والے اِس یخ بستہ ریلے میں ڈبکیاں لیتے نظر آئیں۔ ابھی بھی و قت ہے الفاظ کے گورکھ دھندے سے، لولی پاپ دے کر عوام کو بہلانے کے یہ پرانے ”لچھن” ترک کرکے حقیقی عوامی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے غریب عوام کو یونٹ در یونٹ اور ٹیکس در ٹیکس کے انجکشن لگانے بند کردیں انہیں تو شاید پتہ بھی نہیں کہ اُن کے مریض میں اب کسی مزید ”اینٹی بائیوٹک” ڈوز کی گنجائش نہیں کہ وہ پہلے ہی ”وینٹی لیٹر” پر ہے۔صرف سانس رُکنے کی کسر باقی ہے۔
پوری دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ پرچون اور تھوک کے الگ الگ نرخ ہیں۔ یہاں تو گنگا ہی الٹا بہہ رہی ہے کہ 200یونٹ ہے تو مثال کے طور 3000 کا بل اور اگر یونٹ ان کے خرانٹ اور بددیانت میٹر ریڈ کی وجہ سے 201 پر چلا گیا تو بل تقریباً 9000 روپے۔ ذرا بتائیں! یہ کون سا الجبرا اور ریاضی کا پہاڑہ پڑھے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اِن نام نہاد دانشور افلاطونوں، سقراطوں اور بقراطوں کو نکیل ڈالیں جن کا کام محض عوام کی بوٹیاں نوچنا ہے۔ میں ریاست سے مخاطب ہوں۔ خاص طور پر پنجاب کی راجدھانی پہ براجمان محترمہ مریم نواز صاحبہ سے کہ خاص طور پر پنجاب میں آپ کے بہت سے احسن اقدام کو بلاشک و شبہ سراہا بھی جا رہا ہے، مگر غریب کو زندہ رہنے کے لیے تین وقت کی روٹی درکار ہے۔ یقین مانیں آپ خفیہ سروے کروا لیں، وہ اب دو وقت کی روٹی تک محدود ہو گیا ہے۔ عوا م کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں سے بچانے کے لیے آپ کا عملی اقدام آپ کو عوامی پذیرائی کا ”تاج” پہنا سکتا ہے۔ مرکز میں بھی آپ کی اپنی حکومت ہے، خصوصی اقدام کریں۔ ذاتی دلچسپی لے کر بل بجلی کے یونٹ کے پہاڑے ”دو دونی چار” سے عوام کو نجات دلائیں۔ سادہ ٹیرف بجلی کے بلوں میں دیں سلیب بازی کا ڈرامہ بند کروائیں جو جتنی زیادہ بجلی استعمال کرے اتنی رعایت ہو۔ پنجاب کی پگ آپ کے سر پر ہے اور پنجاب پر حکمرانی کا مطلب پاکستان پر حکمرانی ہے۔ تو پھر کیوں نہ آپ یہ ریلیف دے کر اُن کی دعائوں کا حصہ بن جائیں۔
بلاشک و شبہ مسلم لیگ (ن) جب بھی آئی عوام کو بہت کچھ ڈیلیور کیا۔ مگر کیا موٹروے ،رنگ روڈ، کینال ٹرین سروس، انڈر پاسز، نیلی پیلی ہری ریل سروس، میٹروسروسز ، الیکٹر ک بسیں،مری کے لیے گلاس ٹرین آپ کے شاندار منصوبے ہیں۔ پر کیا یہ غریب کے پیٹ کی بھوک کا ”ایندھن” بن سکتے ہیں۔اِنہیں نگلا یا اُگلا جا سکتا ہے۔ نہیں نہ؟ تو پھر پنجاب کے عوام کو آپ کے اُس وعدے کی ضرورت ہے جو بجلی کے بلوں کے بارے میں آپ نے کیے تھے۔ شاید فرانس کی بات ہے کہ بھوکے عوام جب ”تنگ آمد بجنگ آمد” ملکہ کے محل کا گھیرائو کیے ہوئے تھے، ملکہ نے پوچھا ، کیا بات ہے؟ تو اُن کے خوشامدیوں نے بتایا کہ آٹے کی قلت ہے، مہنگائی کا جن عوام کو ہڑپ کر رہا ہے لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی، تو اُس نے بھولے پن سے بے ساختہ کہا روٹی نہیں ملتی تو کیا ہوا کیک کھا لیں تو یہا ں معصومانہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیک کے پیسے کے لیے حاتم طائی اپنی قبر سے نکل کر عوام سے اپنی سخاوت کا مظاہرہ کرے گا۔ ریاست تو ماں کی طرح ہوتی ہے یہ کیسی سنگدل ماں ہے جو اپنے ہی انڈے ، بچے کھا رہی ہے۔
گستاخی معاف اگر ہو سکے:
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اُس دور کے حاکم سے کوئی بھول ہوئی ہے
٭









