شام کا حکمران کون ہو گا؟……….عبدالرحمٰن الراشد

شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے جشن منانے اور چوراہوں پر اس کے مجسموں کے توڑے جانے کے سلسلے کی آخری شکستگی کے بعد شام کو ایک نئے چیلنج اور بے یقینی کا سامنا ہے اور اس بے یقینی کے پیچھے یہ سوال موجود ہے کہ شام کا اب حکمران کون ہو گا، اقتدار کسی فرد واحد کے ہاتھ میں ہو گا یا کمیٹیاں حکمرانی کریں گی اور اس سے بھی زیادہ اہم بات کہ شام اکٹھا رہ سکے گا یا تین سے چار حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

موجودہ صورتحال میں شاید یہ ناممکن رہے کہ حالات سیدھے رخ پر اور ہموار رہیں۔ کیونکہ بشار الاسد اپنے پیچھے ایک ایسے ملک کو چھوڑ کر گئے ہیں جو مسائل سے اٹا پٹا اور کنٹرول اور قبضے کے لحاظ سے کٹا پھٹا ہے۔

اس میں مختلف گروہوں اور فرقوں کی حکمرانی ہے۔ یہ گروپ جس نے حلب پر قبضہ کیا تھا اور پھر تبدیلی کی قیادت کی ہے وہ تحریر الشام تنظیم ہے، جس کے قائد احمد الشرع ہیں۔ جو ترکیہ کے زیر اثر شامی علاقے سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

جو فوج شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہوئی اور جنوبی آپریشن روم تک پہنچی اس کی قیادت احمد العودہ کے ہاتھ میں تھی۔ جس نے پہلے درعا صوبے میں پیش قدمی کی تھی۔ یہ گروپ بنیادی طور پر ‘فری سیرین آرمی’ کی باقیات میں سے ہے۔

اسی دوران عراق کے ساتھ شام کی سرحد پر قابض کرد اکثریتی علاقے میں ‘ایس ڈی ایف (سیرین ڈیموکریٹک فورس) کام کر رہی ہے جو امریکی اثرات کے حامل علاقے میں ہے۔

آج کا دمشق 1945 کے برلن کی طرح نظر آ رہا ہے۔ جب اتحادی فوجیں برلن میں داخل ہو گئی تھیں۔ امریکہ و برطانیہ کی فوج برلن کے مغرب کی طرف تھیں جبکہ سوویت یونین کی فوج برلن کے مشرق کی طرف تھیں۔

برلن کے مشرق و مغرب سے یلغار کرنے والی ان فوجوں نے آپس میں اتفاق کیا کہ وہ ہٹلر کو قتل کریں گی۔ مگر ہٹلر نے ان فوجوں کے پہنچنے سے پہلے ہی خودکشی کر لی۔ پھر جو فوجیں ہٹلر کو مارنے کے لیے اکٹھی تھیں اب جرمنی کی تقسیم کے لیے الگ الگ مؤقف کی حامی ہو گئیں۔

سوویت یونین نے برلن کے مشرقی حصے پر حکومت قائم کر لی اور مغربی اتحادی افواج کے حصے میں برلن کا مغربی حصہ آ گیا۔

اب دمشق کی فتح کے دن، شام کے مختلف حصوں سے فتح مند قافلے اور گروپ دمشق پہنچ رہے ہیں۔ جیسا کہ بشار کو اقتدار سے الگ کرنے والی رجیم سمجھتی ہے کہ یہ اس کے لیے اکیلے ممکن نہیں ہو گا کہ بیرونی حمایت کے بغیر حالات کو کنٹرول کر سکے۔

رات دس بجے منگل کے روز ایک اطلاع سامنے آئی کہ عبوری حکومت متوقع طور پر شام کے مختلف دھڑوں کی ہو گی۔ جس میں انقلابی اور آزاد دھڑے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے تحت کام کریں گے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کو پانچ بڑے ملکوں کی حمایت حاصل ہے جس کے تحت ملکی انتظام ایک عبوری حکومت دیکھے گی۔ ایک آئین مرتب کیا جائے گا اور بعد ازاں الیکشن ہوں گے۔

بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ بالآخر تحریر الشام تنظیم ہی شام کی حقیقی حکمران بنے گی کہ اس نے اپنے آپ کو ایک زیادہ طاقتور قوت ثابت کیا ہے اور بشار الاسد کو اتار پھینکا ہے اور یہ کام صرف دو ہفتوں میں کر ڈالا۔

‘ایس ڈی ایف’ کے بارے میں یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ شام کے مشرقی بارڈر کی طرف اپنی موجودگی کو برقرار رکھے گی۔ جبکہ دریائے فرات شامی تقسیم میں دیوار برلن کا کام کرتے ہوئے شام کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گا۔ الا یہ کہ تمام گروپ کسی وفاقی انتظامی ڈھانچے پر اتفاق کر لیں اور تقسیم اختیارات کے فارمولے پر اتفاق کر لیں جیسا کہ اس سے پہلے احمد الشرع اس طرح کی ملتی جلتی تجاویز دے چکے ہیں۔

مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ ان کے اتفاق کر لینے کے بعد بھی شام اب صرف اہل شام کے لیے نہیں رہے گا۔ ایک حقیقت جس نے ہمیشہ شام کی قسمت کے فیصلے کیے ہیں وہ اس کی پوری تاریخ پر عیاں ہے کہ علاقائی و عالمی قوتیں شام میں ہمیشہ اثر رکھتی رہی ہیں۔

میں نے حال ہی میں جیمز بارز کی کتاب ‘ریت پر لکیر’ مکمل کی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے برطانیہ و فرانس کے درمیان شام کے معاملے میں رقابت کا خوب ذکر کیا ہے۔ یہ سارا قصہ دونوں عالمی جنگوں کا ہے۔

اب شام کے معاملے میں ایران، ترکیہ، عراق اور اسرائیل بھی لگتا نہیں ہے کہ اپنے مفادات و اثرات سے پیچھے ہٹنے والے ہوں گے۔ حتیٰ کہ ان ملکوں کے درمیان تعلقات کا انحصار بھی ان کے انہیں مفادات اور ان کی پالیسیوں کی بنیاد پر ہوگا۔

بعض قومیں نئے شام میں استحکام کو اپنے لیے خطرے کے طور پر دیکھیں گی اور خوف کا اظہار کریں گی کہ یہ ان کے مقابلے میں ایک قوت بن سکتا ہے۔ جبکہ دیگر اقوام شام میں استحکام کے لیے اس کی حکومت کی مدد کریں گی۔ تاکہ علاقے کی دوسری قوتوں کی طاقت کو شام کے ذریعے بیلنس کر سکیں۔ جو اس سے پہلے ایران کا حمایت یافتہ رہا ہے۔

یہ ممالک یقین رکھتے ہیں کہ شام کی یہ تبدیلی خطے میں استحکام لانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شام کے سامنے امکانات موجود ہیں کہ وہ بارودی سرنگوں کے راستے پر سفر کو جاری رکھنا چاہتا ہے یا ان قوتوں کے ساتھ جڑنا چاہتا ہے جو اسے ترقی کے راستے پر لا سکتی ہیں۔ شام کی ان ساری پڑوسی اقوام میں ایران اور عراق بھی ہیں حتیٰ کہ اسرائیل بھی شامل ہے۔ یہ سب بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اپنے اپنے تحفظات اور سوالات رکھتے ہیں۔

شام اور خطے کے مفادات اس میں ہیں کہ علاقائی سطح پر ایک نیا نظام وضع کیا جائے۔ جو خطروں اور بے چینی کو کم کر سکے اور اس لڑائی کے ماحول کو ختم کرے جو بشار رجیم نے خطے میں پیش کیا۔ جو بالآخر خود بشار کے اقتدار کے خاتمے کا بھی ذریعہ بنا۔ نئی رجیم کے لیے مصالحت اور مفاہمت کی پالیسی ہی مفاد میں ہو سکتی ہے۔

یہی اشارہ احمد الشرع نے اپنے اس ٹی وی بیان میں کیا ہے جو وزیر اعظم عراق کے نام سامنے آیا ہے کہ ‘شام عراق کے خلاف ایک مخالف کے انداز میں نہیں رہنا چاہے گا۔’ انہوں نے عراق کی طرف دوستی و احترام کا ہاتھ بڑھایا ہے کہ شام 60 سال بعد ایک نئے چہرے کے ساتھ دوبارہ نمودار ہوا ہے۔

مگر اس کو اندرونی و بیرونی طور پر بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ نئی شامی قیادت کو تعمیر نو کے لیے دولت کی ضرورت ہو گی، مشورے کی ضرورت ہو گی اور ہمدردی کی ضرورت ہو گی۔ اسے اپنے عرب ممالک سے حمایت چاہیے ہو گی اور یہ حمایت محض سیاسی بنیادوں پر نہیں انسانی بنیادوں پر کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے بھی ہو گی۔ اس مشکل وقت میں اور بحرانی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انہیں اخلاقی حمایت چاہیے ہو گی۔

اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ نئی قیادت کو نقصان دہ ایجنڈوں، لاپرواہی کے عزائم رکھنے والوں اور اپنے اور دوسروں کے ملکوں کو تباہ کرنے والے مہم جوئیوں کے لیے کمزور نہ چھوڑا جائے۔ اس خطے میں لگنے والی آگ گذشتہ 13 برسوں سے نہیں بجھ سکی ہے اور آج بھی جل رہی ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، آپ کو متعدد ناکام تبدیلیاں نظر آئیں گی جو نئے انقلابیوں کے لیے کافی سبق ہیں۔
(بشکریہ العریبیہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں