
صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اختلاف کرنے والے بھی کم از کم یہ امر تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرمپ کے زیر قیادت آنے کے پہلے دن سے امریکہ کو ایک ایسے انقلاب کا سامنا ہے، جو بڑی اور اہم تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ چاہے اس انقلاب کے پس منظر میں کیے گئے تمام لفظی وعدے پورے ہو سکے ہوں یا نہ ہو سکے ہوں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا اور دوسرا دور پہلے دور سے زیادہ مختلف اور اہم ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب کی بار ٹرمپ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ان کے منصوبوں اور ٹیم کی صورت امریکہ میں ایک وسیع تر تحریک ہے۔
وہ وائٹ ہاؤس میں صرف بیٹھ نہیں گئے بلکہ تیار کھڑے ہیں تاکہ اپنے منصوبوں، انتظامی قیادت کو آگے بڑھا سکیں۔ وہ اپنی تجاویز اور تصورات پر عمل کے لیے بے چین اور بے قرار ہیں۔ نیز یہ کہ عوامی جذبات اور حمایت سے پوری طرح لیس ہو کر نئے دور کی شروعات کر رہے ہیں۔
ان کی نئے دور کی رفتار ایسی ہے جو ماضی کے کسی بھی دور صدارت سے زیادہ اور یکسوئی سے آگے بڑھتی چلی جانے والی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے اپنے پہلے دور صدارت کے مقابلے میں رفتار تیز تر ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کے اپنے پہلے دور سے اس قدر تیز اور مختلف ہے کہ اس کی شناخت انقلاب کی سی نظر آ رہی ہے۔
جہاں تک ہمارے اپنے خطے کا تعلق ہے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ٹرمپ کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ اس لیے جانتے ہیں کہ ٹرمپ اپنی اعلان کردہ ترجیحات اور ایجنڈے کے مطابق بہت مثبت کھلاڑی ثابت ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ بطور امریکی صدر فلسطین اور عرب اسرائیل امن کے حصول کے لیے خواہاں ہیں۔ اسی طرح ایران کے ساتھ معاملات میں بھی وہ بڑے کھلے ذہن کے ساتھ دو واضح آپشنز رکھتے ہیں۔ ان دو آپشنز میں سے انہیں ایک کو بروئے کار لانا ہے۔ کیونکہ وہ ایرانی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
ان کے لیے آیک آپشن یہ ہے کہ وہ پرامن انداز اور مفاہمت کے ساتھ ایرانی جوہری پروگرام کو روکیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا اور انہیں ایران سے اپنی توقعات کے مطابق تعاون نہ ملا تو ایران اور اس کے جوہری پروگرام کے لیے دوسری آپشن محاذ آرائی اختیار کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے شام کے مسئلے کو بھی حل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں شام میں ترکیہ کا کردار بھی ان کے محل نظر ہے۔ ترکیہ جس کا شام میں ایک فوجی کردار ہے ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ترکیہ بھی شام کے لیے ان کی حمایت کرے۔
شام کی خودمختاری بھی ان کے لیے اہم ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ علاقے سے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کا خاتمہ بھی ممکن بنایا جائے۔ تاکہ امریکہ علاقے سے اپنی افواج کو واپس بلا سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی حوثیوں کو اپنا پہلا ہدف بنایا ہے۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں آتے ہی حوثیوں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ایک مرتبہ پھر شامل کر دیا ہے۔ اس طرح جوابی پالیسی اپنائی۔
یہ اقدام ان کے پیشرو صدر جوبائیڈن نہیں کر سکے تھے۔ جو بائیڈن نے محض اس دھمکی پر اکتفا کیا تھا اگر حوثی ملیشیا نے غزہ جنگ کے رد عمل میں شروع کر رکھے اپنے حملے بند نہ کیے تو حوثیوں کو دوبارہ دہشت گرد قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن جو بائیڈن نے حوثیوں کے حملے نہ روکنے کے باوجود انہیں دہشت گردوں والی فہرست میں دوبارہ شامل نہیں کیا۔ جبکہ صدر ٹرمپ نے نہ صرف یہ کہ آتے ہی حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے بلکہ ان سے کہا کہ اگر وہ دہشت گردوں کی فہرست سے اپنا نام نکلوانا چاہتے ہیں تو انہیں بحیرہ احمر میں اپنے حملے بند کرنا ہوں گے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت کے دوران سعودی عرب کے ساتھ خصوصی تعلقات کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اب بھی وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اسی طرح اولیت و اہمیت دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو صدر بنتے ہی فون کال کی ہے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کا دورہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب پہلا ملک ہوگا جس کا وہ دورہ کریں گے۔
ان کے اس سعودی دورے کے دوران امکانی طور پر 450 سے 500 ارب ڈالر کے اقتصادی معاہدے شامل ہوں گے۔ صدر ٹرمپ اپنے غیر ملکی دوروں میں اقتصادی جہت کو نمایاں رکھتے ہیں اور اپنے مخاطبین کے ساتھ مارکیٹ کی زبان اور نفع نقصان کی اصطلاحات میں مخاطب ہوتے ہیں-
اس تناظر میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کے ساتھ مملکت کے تعلقات اور اقتصادی معاملات ہمارے فائدے ہیں۔ اس کے برعکس خطرہ ان لوگوں کے ساتھ جڑنے میں ہے جن کے ساتھ تجارت پر پابندیاں ہیں۔
پچھلے ماہ چینی وزارت خارجہ نے بھی تبصرہ کیا تھا کہ چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی معاملات دونوں کے فائدے میں ہیں۔ چین کی امریکہ میں سرمایہ کاری کا حجم 700 ارب ڈالر ہے۔
پہلے دور صدارت میں ٹرمپ نے ریاض کا دورہ اس وقت کیا جب ولی عہد اپنا ‘ویژن 2030’ پیش کر رہے تھے۔ امریکہ اور مملکت کے درمیان کئی بڑے پراجیکٹس پر معاہدے کیے گئے تھے۔ لیکن کچھ معاہدات پر عمل نہ ہو سکا، امریکی قانون سازوں کی پیدا کردہ رکاوٹیں اور تحفظات آڑے تھے۔ یوں ان کے اقدامات کا حجم اعلان کردہ عزائم سے کم رہا۔ زیادہ تر معاہدوں کو طویل مدتی اقساط میں لاگو کیا گیا تھا، ان میں دس برسوں پر محیط سرمایہ کاری کے منافع بخش کام بھی شامل تھے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات ہمیشہ حالات کے دھاروں سے ماورا سٹریٹجک نوعیت اور سطح کے رہے ہیں۔ یہ بات سابق امریکی صدر جو بائیڈن پر بھی اچھی طرح واشگاف رہی۔ صدر جو بائیڈن نے بھی تعلقات کی اس وسعت و گہرائی کے سبب تیل، تجارتی معاہدوں یا ذاتی تعلقات سے ہٹ کر دو طرفہ سٹریٹجک تعاون اور دفاعی معاہدے کی پیش کش کی۔
سابق صدر جو بائیڈن کے دور کے مقابلے میں ٹرمپ کے ساتھ تعلقات مزید قریبی اور گرم جوشی پر مبنی ہونے کا امکان ہے۔ سعودی ولی عہد نے انہیں تعلقات اور سرمایہ کاری سمیت کئی حوالوں سے زیادہ قابل اعتماد اتحادی پایا ہے۔
انہی میں خطے کے فائدے کے لیے ایک بڑا منصوبہ بھی شامل ہے جسے ڈالروں کے پیمانے سے بھی ماورا سمجھا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسی کے نتیجے میں علاقائی سطح پر امن کی خواہش پوری ہوگی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے دو ریاستی حل کے تناظر میں دو خود مختار ریاستوں کا وجود عمل میں آئے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ ٹرمپ بڑے خوابوں اور زبردست عزم کے ساتھ ایک غیر معمولی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کے وائٹ ہاؤس میں پہلے دن کے اقدامات بھی دیکھنے کے لائق ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ وائٹ ہاؤس میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے ان اقدمات کا ہر جانب والہانہ خیر مقدم کیا جائے گا۔ ضروری ہے ہم بھی اس تاریخی شخصیت کی صف میں شامل رہیں اور اس کی پھر سے حمایت کرتے رہیں۔









