کشمیر: قربانیوں کا سفر اور آزادی کی جدوجہد…شاہد گھمن


مسئلہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد پیدا ہونے والا وہ تنازع ہے جو آج بھی جنوبی ایشیا کے امن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ تقسیم کے وقت یہ اصول طے پایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے، لیکن ریاست جموں و کشمیر کی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود ڈوگرہ حکمران کی بھارت نوازی اور نئی دہلی کی سیاسی چالاکیوں کے باعث یہ خطہ ایک ایسے تنازع کا شکار ہو گیا جس نے کروڑوں انسانوں کو گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اقوام متحدہ نے 1948 میں قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کا وعدہ کیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ وعدہ محض کاغذی تحریروں تک محدود رہ گیا۔ بھارت نے نہ صرف ان قراردادوں کو نظر انداز کیا بلکہ کشمیر پر اپنا جبری تسلط مزید مستحکم کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جنہوں نے کشمیری عوام کی سیاسی، سماجی اور معاشی آزادی کو کچل کر رکھ دیا۔

پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے اچانک اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس اقدام کے ذریعے کشمیری عوام کی شناخت اور حقوق چھیننے کی کوشش کی گئی اور غیر کشمیریوں کو بڑی تعداد میں بسا کر آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سازش شروع ہوئی۔ یہ فیصلہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف تھا بلکہ بھارتی آئین اور شملہ معاہدے کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی۔

اس کے بعد سے وادی کشمیر دنیا کے سب سے بڑے فوجی محاصرے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لاکھوں بھارتی فوجی نہتے عوام پر مسلط ہیں۔ پیلٹ گنز سے نوجوانوں کی بینائی چھین لی گئی، ہزاروں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں ہوئیں، خواتین کی عزتوں کو پامال کیا گیا اور انٹرنیٹ سمیت تمام ذرائع ابلاغ بند کر کے کشمیری عوام کو دنیا سے کاٹ دیا گیا۔ ان تمام مظالم کے باوجود کشمیری عوام نے اپنے حق خودارادیت سے دستبردار ہونے سے انکار کیا اور پاکستان کے ساتھ اپنے رشتے کو مزید مضبوط کیا۔

پاکستان نے ہمیشہ ہر فورم پر کشمیری عوام کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ ہو یا او آئی سی، ہر جگہ پاکستان نے یہ مقدمہ پیش کیا کہ کشمیر کے بغیر برصغیر میں امن ممکن نہیں۔ ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے جو اس عزم کی علامت ہے کہ پاکستانی عوام اور حکومت کشمیری بھائیوں کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کوششوں کو عالمی طاقتوں کی بے حسی اور بھارت کے معاشی و تزویراتی تعلقات کے سامنے اکثر دب جانا پڑا۔ آج پاکستان کو اپنی سفارتکاری کو زیادہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے اور جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔

عالمی برادری کا رویہ اس مسئلے پر دوہرے معیار کا عکاس ہے۔ مغربی ممالک جہاں یوکرین کے مسئلے پر فوری اور مؤثر اقدامات کرتے ہیں، وہیں کشمیر کے انسانی المیے پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اپنی رپورٹوں میں بھارتی فوجی مظالم کو بے نقاب کر چکی ہیں، لیکن عملی طور پر بھارت کو کسی احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہی خاموشی بھارت کو مزید بے لگام اور کشمیری عوام کے خلاف زیادہ سخت اقدامات پر آمادہ کر رہی ہے۔

کشمیر کا مسئلہ محض پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع نہیں بلکہ یہ کروڑوں انسانوں کے بنیادی حقوق اور آزادی کا سوال ہے۔ جب تک کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، خطے میں امن اور ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے اور عالمی برادری کو اس مسئلے کے حل کے لیے مجبور کرے۔ کشمیر کی آزادی صرف کشمیریوں کی نہیں بلکہ پورے برصغیر کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں