
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک صاحب کے اکثر خطبات جمعہ آج کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب دو رکعت کے امام نہیں بلکہ ان کی نظر دنیا کے بدلتے حالات و واقعات اور مسلمان قوم کی فکر پر ہوتی ہے۔رمضان کا پہلا جمعہ انہو ں نے عورت مارچ کے تناظر میں بیان کیا۔عورت ہر معاشرے کا بنیادی ستون اور خاندان کی اساس ہوتی ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت نہایت پست تھی، لیکن اسلام نے اسے عزت، وقار، اور مساوی حقوق عطا کیے۔آج کی عورت کی آزادی کی خواہش اور اس کے حقوق و فرائض پربات کرنے سے پہلے قبل از اسلام عورت کی حیثیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قدیم معاشروں میں عورت کو نہ صرف کمتر سمجھا جاتا تھا بلکہ وہ ظلم و ستم کا شکار بھی تھی۔اگر عرب معاشرے میں عورت کے مقام کو دیکھا جائے تو،اسلام سے پہلے عربوں میں عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ بیٹی کی پیدائش کو نحوست قرار دے کر زندہ دفن کر دیتے تھے۔ عورت کو خرید و فروخت کی چیز سمجھا جاتا اور اسے کسی بھی وقت طلاق دے کر بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا۔ عورت جائیداد سمجھی جاتی تھی، وراثت میں حصہ نہیں رکھتی تھی، اور شوہر کی ملکیت تصور کی جاتی تھی۔یونانی اور رومی تہذیب میں عورت کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔
اسے تعلیمی اور معاشرتی حقوق حاصل نہیں تھے۔ عورت کو مرد کی ملکیت تصور کیا جاتا، اور اس کے تمام فیصلے مرد کے تابع ہوتے تھے۔ہندو معاشرے میں عورت کو سب سے زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔ہندو عورت، کے لیے تعلیم اور ترقی کے دروازے بند تھے۔اور عورت کو شوہر کی وفات کے بعد ستی ہونے (یعنی شوہر کے ساتھ جل کر مرنے) پر مجبور کیا جاتا تھا۔یہودی روایات کے زیرِ اثر، ابتدائی عیسائیت میں بھی حیض کو ایک ”ناپاک” حالت سمجھا جاتا تھا۔ حیض کے دوران خواتین کو الگ رکھنے اور انہیں ”پاکیزگی کی رسم” پوری کرنے کے بعد ہی دوبارہ عبادت میں شامل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔ہندومت میں حیض کو ایک ”ناپاک” حالت قرار دیا گیا ہے۔ اورحیض کو عورت کے پچھلے گناہوں کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔قدیم ہندوستان میں خواتین کو حیض کے دوران گھروں کے الگ کمروں میں رکھا جاتا تھا اور انہیں مخصوص برتنوں میں کھانا دیا جاتا تھا۔انہیں باورچی خانے میں داخل ہونے، کھانے پکانے، یا خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ کھانے سے بھی روکا جاتا تھا۔بھارت کے کچھ علاقوں میں آج بھی یہ روایات موجود ہیں، اگرچہ جدید شہروں میں ان میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔قبل از اسلام، عیسائیت اور ہندومت میں حیض کو ناپاکی سے جوڑ کر خواتین پر مختلف سماجی اور مذہبی پابندیاں عائد کی جاتی تھیں۔ اسلام نے آکر حیض کو فطری عمل قرار دیا اور عورتوں کو عزت دی، انہیں سماجی اور مذہبی زندگی سے الگ کرنے کے بجائے ان کے لیے سہولتوں کا نظام دیا۔
اسلام نے عورت کو جو عزت، وقار، اور حقوق دیے، وہ کسی اور مذہب یا نظام میں نہیں ملتے۔ قرآن اور احادیث میں عورت کے مقام کو واضح کیا گیا اور اسے مرد کے برابر حقوق دیے گئے۔اسلام نے عورت کو وہ عزت اور مقام دیا جس کا وہ ہمیشہ سے حقدار تھی۔ قرآن مجید میں عورت و مرد کا فرق کیے بغیر، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی” (سورۃ الاسراء: 70)۔رسول اللہ ﷺ نے بھی عورت کے احترام پر زور دیا اور فرمایا:”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔آج عورت کو وراثت میں مرد سے کم حصہ ملنے کی بات کرنے والو ں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام سے پہلے عورت کو وراثت میں کوئی حق حاصل نہ تھا، اسلام نے عورت کے لیے وراثت میں حصہ مقرر کردیا۔ قرآن پاک میں ہے کہ”مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ” (سورۃ النساء: 7)۔اسلام سے پہلے عورت کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کر دی جاتی تھی، لیکن اسلام نے عورت کو نکاح میں شراکت دار بنایا۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ ”کسی بھی کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے” (بخاری، مسلم)۔اسی طرح، اسلام نے عورت کو طلاق کا حق (خلع) بھی دیا، تاکہ وہ جبری رشتے سے آزادی حاصل کر سکے۔اسلام میں تعلیم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دی گئی۔یہ تعلیم عورت کے لیے ترقی اور شعور کا ذریعہ بنی اور اسے معاشرے میں ایک اہم مقام عطا کیا۔حضرت عائشہ ؓ سے دو ہزار سے زیادہ احادیث بیان کی جاتی ہیں۔اسلام میں ماں کا مقام بہت بلند ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا،”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے” (مسند احمد)۔ایک بار جب ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا،”تیری ماں ”،اس نے پھر پوچھا: ”پھر کون؟”آپ ﷺ نے فرمایا، ”تیری ماں ”،اس نے تیسری مرتبہ پوچھا: ”پھر کون؟”تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا باپ” (بخاری، مسلم)۔جہاں قبل از اسلام بیٹی کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، وہاں اسلام نے بیٹی کو باعثِ رحمت قرار دیا۔ مشہور حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا،”جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا” (مسلم)۔اس کے بعد اسلام نے شوہر پر لازم کیا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ عزت اور محبت سے پیش آئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،”اور ان (عورتوں) کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو” (سورۃ النساء: 19)۔نبی کریم ﷺ کا اپنی ازواج کے ساتھ حسنِ سلوک مسلمانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا،”تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو”۔
پاکستان میں خواتین مارچ ہر سال حقوقِ نسواں کے حوالے سے ایک حساس موضوع بنتا جا رہا ہے۔ یہ مارچ خواتین کے حقوق، برابری، اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تاہم، کچھ حلقے اسے مغربی نظریات سے متاثر ایک خاص سوچ کے تحت چلنے والی تحریک قرار دیتے ہیں، جو ان کے نزدیک خاندانی اور اسلامی اقدار سے متصادم ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو بعض اوقات ایسے نعرے اور مطالبات نقصان پہنچاتے ہیں جو دینی اور ثقافتی اقدار سے ٹکراتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک ایسا بیانیہ جنم لیتا ہے جسے مخالفین ”خاندانی نظام کے خلاف سازش” قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر خواتین کے حقیقی مسائل پر بات کی جائے، جیسے تعلیم، وراثت، اور گھریلو تشدد، تو زیادہ وسیع حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
اسلام میں خواتین کو جو حقوق دیے گئے ہیں، ان میں سب سے اہم وراثت کا حق ہے۔ قرآن مجید میں واضح احکامات موجود ہیں کہ عورت کو اس کا شرعی حصہ دیا جائے، لیکن پاکستانی معاشرت میں اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ بہت سے خاندان روایتی رسوم و رواج کی بنیاد پر عورت کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں، یا پھر دباؤ ڈال کر اسے اپنا حق چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، عورت کے وراثتی حقوق کو نظر انداز کرنا ایک عام رویہ ہے۔ بعض اوقات جائیداد کو خاندان سے باہر جانے سے روکنے کے لیے خواتین کی شادی نہیں کی جاتی یا ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنا حصہ بھائیوں کو بخش دیں۔ یہ رجحان نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی ناانصافی کو بھی فروغ دیتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے بیانیہ میں توازن ضروری ہے۔ عورت کو وہ آزادی اور اختیار ضرور ملنا چاہیے جو اسلام نے اسے دیا ہے، لیکن اس کے نام پر ایسے نظریات کو فروغ دینا جو مشرقی اقدار اور اسلامی احکامات کے خلاف ہوں، عوام میں تقسیم پیدا کرتے ہوں۔ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔اس کے برعکس خواتین کی وراثت جیسے حقیقی مسائل پر توجہ دینے اور ان کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ حقوق کی جدوجہد کسی خاص ایجنڈے کے بجائے حقیقت میں انصاف اور برابری کی بنیاد پر کی جا سکے









