
فیض احمد فیض برصغیر کے ایک عظیم شاعر تھے جنہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی شاعری کا دائرہ صرف حسن و عشق تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے سماجی انصاف، انقلاب، اور مزاحمت کے جذبات کو بھی اجاگر کیا۔ ان کا کلام ادبی حسن اور سیاسی شعور کا ایک نادر امتزاج ہے۔فیض احمد فیض کی شاعری میں کلاسیکی اور جدید اسالیب کی جھلک نمایاں ہے۔ انہوں نے اردو غزل اور نظم کو ایک نیا رنگ دیا اور اسے عوامی جذبات سے ہم آہنگ کیا۔گو ان کی شاعری میں میر، غالب اور اقبال کے اثرات ملتے ہیں، مگر انہوں نے اپنی ایک منفرد پہچان قائم کی۔ان کا کلام سادگی، حسنِ بیان، اور گہری فکر کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی شاعری میں استعارے، تشبیہات اور تلمیحات کا عمدہ استعمال نظر آتا ہے۔
”گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نوبہار چلے” جیسی نظمیں ان کے حسنِ بیان اور خوبصورت تشبیہات کی بہترین مثال ہیں۔فیض کی شاعری میں سیاست اور سماجی انقلاب کا عنصر نمایاں ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور مزدوروں، کسانوں، اور پسے ہوئے طبقات کی آواز بنے۔ ان کا کلام استحصال اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گیا۔دورِ آمریت میں فیض احمد فیض کی شاعری، قید و بند کی سزائیں اور عوامی شعور کی بلندی میں ان کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ ہر کسی پہ خوب عیاں ہو رہا ہے۔
فیض احمد فیض اردو شاعری کے وہ عظیم ستون ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف محبت کے جذبات کو سمویا بلکہ جبر و استبداد کے خلاف بھی اپنی آواز بلند کی۔ ان کی شاعری میں جہاں حسن و عشق کی لطافتیں موجود ہیں، وہیں آمریت اور ظلم کے خلاف ایک موثر پیغام بھی موجود ہے۔ ان کے کلام میں ایک ایسی انقلابی روح پائی جاتی ہے جو عوام کے شعور کو اجاگر کرتی ہے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد پر آمادہ کرتی ہے۔”ہم دیکھیں گے” جیسی نظم ایک عہد ساز تخلیق ہے، جو جبر کے خلاف جدوجہد اور آزادی کے خواب کی ترجمان ہے۔ اسی طرح ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” ظلم و ستم کے خلاف ایک پرجوش نعرہ ہے۔فیض کو ان کے نظریات کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں، مگر انہوں نے اپنے خیالات سے سمجھوتہ نہ کیا۔ ان کی شاعری نے سیاسی اور سماجی بیداری میں نمایاں کردار ادا کیا۔
آج نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی ان کی شاعری ہر اس تحریک کا حصہ بن جاتی ہے جو جبر و استبداد کے خلاف اٹھتی ہے۔اصل نقطہ ہی یہ ہے کہ فیض احمد فیض کی شاعری آمریت کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھی۔ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعے استحصالی قوتوں کو للکارا اور پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کی۔ ان کی شاعری میں بغاوت اور امید کی وہ چنگاری موجود ہے جو آمریت کی تاریکی میں روشنی کی کرن ثابت ہوتی ہے۔ ان کی مشہور نظم ”ہم دیکھیں گے“ آمریت کے خلاف ایک لازوال احتجاج ہے جو آج بھی مزاحمتی تحریکوں کا حصہ بنی ہوئی ہے۔فیض احمد فیض کو اپنی نظریاتی وابستگی اور بغاوتی خیالات کی بدولت کئی بار قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
1951 میں انہیں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا اور کئی سال قید میں رکھا گیا۔ اس دوران انہوں نے اپنے تجربات کو شاعری میں ڈھالا اور ”زنداں نامہ“ جیسا شاہکار تخلیق کیا۔ قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود ان کے حوصلے پست نہ ہوئے بلکہ ان کا قلم مزید توانا ہوا۔اورفیض کی شاعری نے عوامی شعور کو بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ محض ایک شاعر نہیں بلکہ عوامی تحریک کے ایک اہم رہنما بھی تھے۔ ان کی شاعری نے مزدوروں، کسانوں اور مظلوم طبقات کو ان کے حقوق کا شعور دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاعری صرف حسن و عشق کی داستان نہیں بلکہ ایک انقلابی ہتھیار بھی ہے جو سماجی ناانصافیوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان کے الفاظ آج بھی ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ان کی شاعری آج بھی ظلم اور استحصال کے خلاف ایک مضبوط آواز ہے۔فیض کی شاعری عشق کے جذبات کو گہرائی سے بیان کرتی ہے، جہاں محبت میں وصل کی خواہش بھی ہے اور ہجر کی تڑپ بھی۔فیض احمد فیض کی شاعری ادب اور سیاست کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کو نہ صرف نئے اسلوب اور فکری وسعت سے نوازا بلکہ عوامی جذبات اور انقلابی روح کی نمائندگی بھی کی۔ اور اردو ادب کا ایک انمٹ حصہ ہے۔ایک طرف،فیض احمد فیض کی شاعری میں محبت، جدائی، انتظار اور امید کے حسین امتزاج ملتے ہیں۔جیسے کہ فیض صاحب فرماتے ہیں کہ،
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشک بار چلے
اگرچہ دل کو نظر میں نہ لا سکے لیکن
اگرچہ ساتھ نہ دیں پر وفا شعار چلے
یہاں سے شہر کو کچھ بھی نہیں، مگر ہم تو
چراغ لے کے چلے، اور بادِ یار چلے
تو دوسری طرف فیض احمد فیض کی شاعری دورِ آمریت میں ایک روشنی کا مینار ثابت ہوئی۔ انہوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے عوامی حقوق، جمہوریت اور آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی شاعری آج بھی اسی جذبے اور ولولے کے ساتھ زندہ ہے اور ہر اس شخص کو ہمت دیتی ہے جو ظلم کے خلاف لڑنا چاہتا ہے۔ آمریت کے سائے میں ان کی شاعری عوامی شعور کی بیداری کا ایک اہم ذریعہ بنی اور رہتی دنیا تک یہ مشعل جلتی رہے گی۔فیض احمد فیض نے ”ڈھاکہ سے واپسی پر” کے عنوان سے ایک مشہور نظم لکھی تھی، جو 1974 میں بنگلہ دیش کے سفر سے واپسی پر کہی گئی تھی۔ یہ نظم محبت، جدائی اور افسوس کی کیفیات کو بڑے گہرے انداز میں بیان کرتی نظر آتی ہے۔
ڈھاکہ سے واپسی پر
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار؟
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے، مناجاتوں کے بعد
اپنے دل کو دونوں حالت میں سبک پایا ہے ہم نے
چند امیدوں کے بعد اور چند بے باتوں کے بعد
فیض، تھی راہ سرابوں میں بڑی دیر کی رات
ہم جہاں پہنچے، خرابے تھے، مداراتوں کے بعد









