شرم الشیخ / قاہرہ (وائس آف رشیا)
مشرقِ وسطیٰ میں برسوں سے جاری تنازع کے خاتمے کے لیے بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ بین الاقوامی امن سربراہی اجلاس میں غزہ جنگ بندی معاہدے پر بالآخر دستخط کر دیے گئے۔
معاہدے پر دستخط مصری صدر عبدالفتاح السیسی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ترک صدر رجب طیب ایردوان اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کیے۔ تقریب کو مصری صدر کے دفتر کی جانب سے براہِ راست نشر کیا گیا، جسے عالمی ذرائع ابلاغ نے تاریخی لمحہ قرار دیا۔
ٹرمپ کا اعلان: “تین ہزار سال بعد تنازع ختم ہوا”
معاہدے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ ’’آخرکار یہ تنازع ختم ہوا — تین ہزار سال، یا شاید پانچ سو سال، جو بھی ہو، یہ ایک طویل عرصہ تھا۔ اب امن واپس آرہا ہے۔‘‘
انہوں نے اسے اپنی خارجہ پالیسی کی ’’سب سے بڑی کامیابی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کا دن دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ٹرمپ نے قطر، ترکی اور مصر کی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی سفارتی کوششوں کو ’’قابلِ ستائش‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے اپنے مصری ہم منصب عبدالفتاح السیسی کو ’’شاندار انسان‘‘ اور ’’عظیم جنرل‘‘ کے القابات سے نوازا۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’’اس موقع پر سب خوش ہیں، ہم اس سے قبل بھی کئی معاہدے کر چکے ہیں لیکن اس امن معاہدے نے راکٹ کی طرح اڑان بھری ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرقِ وسطیٰ سے شروع ہوگی، مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
فائربندی، مغویوں کی رہائی اور انسانی امداد کی شروعات
ذرائع کے مطابق، معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج غزہ پٹی سے متعین لائن تک واپس جائیں گی، جب کہ تمام مغویوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی نگرانی میں انسانی امداد کی فراہمی شروع کی جائے گی۔
معاہدے کے اگلے مرحلے میں غزہ کے انتظامی ڈھانچے کی بحالی، عارضی حکومت کی تشکیل اور بین الاقوامی امن دستے کی تعیناتی پر بات چیت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ایران کی تائید، خطے کے نئے دور کی نوید
امریکی صدر کے مطابق، ایران نے بھی غزہ امن منصوبے کی تائید کی ہے، جسے مبصرین نے خطے میں استحکام کی سمت ایک غیر معمولی پیشرفت قرار دیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’آج دنیا ایک نئے تاریخی دور کی گواہ ہے، جب مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہورہا ہے اور لوگ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔‘‘
عالمی ردِعمل
عالمی مبصرین کے مطابق، اگر معاہدے پر مکمل عملدرآمد ہو گیا تو یہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن اور نئے علاقائی توازن کی بنیاد ثابت ہوسکتا ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ غزہ، اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات میں ایک نیا باب کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔









