دمشق(وائس آف رشیا) شام میں بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے والے گروپوں کی نمائندگی کرنے والے گروپ “ملٹری آپریشنز” کے کمانڈر احمد الشرع نے کہا ہے کہ تمام مسلح گروپوں کو تحلیل کر دیا جائے گا اور شامی ریاست کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں ہو گا۔ شام میں اب جبری بھرتی نہیں ہو گی۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ شام میں تنخواہوں میں 400 فیصد اضافہ کرنے کے لیے کام کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔
شام میں استحکام کے دوران فوج میں لازمی سروس کی مدت پورے اڑھائی تال تھی۔ اس کے علاوہ ایسی سزائیں بھی تھیں جو سپاہی کو دی جا سکتی تھیں جن میں اس کی سروس کی مدت کو ہفتوں یا مہینوں تک بڑھا دیا جاتا تھا۔ 2005 میں سروس کی مدت کو کم کر کے دو سال کرنے کا فیصلہ کیا گیا پھر 2008 میں لازمی سروس 21 ماہ کی گُئی اور 2011 کے شروع میں اور جنگ شروع ہونے سے پہلے یہ مدت ڈیڑھ سال کردی گئی تھی۔
لیکن مارچ 2011 کے وسط میں شروع ہونے والی شامی جنگ میں تمام حاضر سروس فوجیوں کو ان کی سروس کی مقررہ مدت کے اختتام سے دور کردیا گیا۔ اس کے ساتھ دسیوں ہزار ان شہریوں کو طلب کر لیا گیا جنہوں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے اپنی فوجی خدمات مکمل کرلی تھیں۔ اس کے ساتھ رشوت ستانی اور الاؤنسز کی ادائیگی کے بہت سے معاملات میں بھی فوجیوں کو پریشان کیا گیا۔ ان اقدامات نے ان نوجوانوں کے گروپ کو تھکا دیا اور وہ جبری بھرتی سے بھاگنے پر مجبور تھے۔









