پوتن اور ٹرمپ کی ملاقات ، عالمی سیاست کی نئی تشکیل…. شاہد گھمن

روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات بین الاقوامی سیاست میں ایک غیر معمولی واقعہ قرار دی جا رہی ہے۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا شدید سیاسی اور معاشی بحرانوں سے گزر رہی ہے۔ یوکرین تنازعہ نے یورپ کو توانائی کے بحران میں مبتلا کر دیا ہے، نیٹو کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے روس کے خدشات کو مزید تقویت دی ہے اور ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت نے امریکہ کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔ ان تمام حالات نے اس ملاقات کو غیر معمولی اہمیت دی۔

گفتگو کے دوران صدر پوتن نے کھل کر روس کے خدشات اور موقف بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب روس کے اردگرد عسکری دبائو بڑھا کر خطے کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ پوتن کا موقف تھا کہ روس اپنی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا، تاہم اگر مغربی طاقتیں سنجیدہ بات چیت پر آمادہ ہوں تو روس تعاون کے دروازے بند کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ ان کا لب و لہجہ سخت مگر حقیقت پسندانہ تھا۔

یوکرین سے جاری جنگ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے صدرپوتن نے کہا کہ وہ یوکرینی عوام کو بھائیوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ یوکرین کی موجودہ صورتحال سانحہ ہے اور روس کیلئے بہت دکھ کا باعث ہے۔صدرپوتن نے کہا کہ یوکرین کی سکیورٹی یقینی بنائی جانی چاہیے اور اس مقصد کیلئے ماسکو کام کرنے پر تیار ہے تاہم انہوں نے یوکرین تنازعہ نمٹانے اور دیرپا سمجھوتے کیلئے مسئلہ کی جڑ ختم کرنے پر زور دیا۔

صدر پوتن کا کہنا تھا کہ پائیدار اور دیر پا امن کے لیے جنگ کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہوگا، متعدد بار کہا ہے کہ روس کے تمام جائز خدشات کو زیرغور لانا ہوگا۔ یورپ سمیت دنیا بھر میں سلامتی کے توازن کو بحال کرنے کا کہا ہے۔

ٹرمپ نے اپنی روایت کے مطابق “امریکہ فرسٹ” پالیسی کا عکس پیش کیا۔ انہوں نے یورپی اتحادیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو ہمیشہ امریکی وسائل پر انحصار کرتا رہا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ یورپ اپنی سلامتی کی ذمہ داری خود اٹھائے۔ ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ غیر ضروری جنگوں کے مخالف ہیں اور روس کے ساتھ تعلقات کو امریکہ کی معیشت کے لیے فائدہ مند تصور کرتے ہیں۔ توانائی اور تجارت کے میدان میں انہوں نے روس کے ساتھ تعاون کے امکانات کو مثبت انداز میں بیان کیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزام کو دھوکہ دہی قراردیا۔

توانائی اور معیشت اس ملاقات کا ایک اور اہم موضوع رہے۔ روس نے اپنی توانائی کے ذخائر کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے نئے راستے تجویز کیے جبکہ ٹرمپ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ توانائی کا بحران مغرب کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور روس کے ساتھ تعاون اس بحران کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس پہلو کو خاص طور پر یورپی منڈیوں میں دلچسپی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔

سفارتی حلقے اس ملاقات کو عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ مغربی دنیا اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان مکالمے کے بغیر کوئی بھی عالمی بحران حل نہیں ہو سکتا۔ تجزیہ کار اس ملاقات کو برف پگھلانے کی ایک ابتدائی کوشش قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ فوری نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی، لیکن اس مکالمے نے دنیا کو ایک مثبت اشارہ ضرور دیا ہے۔

ماسکو میں اس وقت یہ احساس عام ہے کہ پوتن اور ٹرمپ کی ملاقات نے عالمی سیاست میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ اب یہ آنے والا وقت طے کرے گا کہ آیا یہ ملاقات تعاون کی نئی راہیں کھولے گی یا اختلافات کی پرانی داستان کو مزید طول دے گی۔ مگر ایک بات طے ہے کہ یہ ملاقات محض رسمی گفتگو نہیں بلکہ عالمی سیاست کی نئی تشکیل کا نقطہ آغاز ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں