
دنیا کی نظریں ایک بار پھر روس اور امریکہ کے تعلقات پر جم گئیں ہیں۔ آج 15 اگست 2025 کو امریکی ریاست آلاسکا کے روشن شہر انکرج میں وہ لمحہ آیا ہے جس کا عالمی سیاست میں کئی ہفتوں سے انتظار تھا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ براہِ راست ایک میز کے گرد بیٹھ کر عالمی منظرنامے کو ترتیب دینے کی کوشش کریں گے۔روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، دونوں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ آمنے سامنے بیٹھ رہے ہیں۔ ملاقات کا وقت مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے(ماسکو کے وقت کے مطابق رات ساڑھے 10 بجے)مقرر کیا گیا ہے، اور یہ مقام انکرج کنونشن سینٹر ہوگا۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب ماسکو اور واشنگٹن کے تعلقات کئی دہائیوں کی بدترین کشیدگی سے گزر رہے ہیں۔ یوکرین تنازع، نیٹو کی مشرقی یورپ میں موجودگی، اقتصادی پابندیاں اور عالمی توانائی بحران دونوں فریقین کے درمیان خلیج کو گہرا کر چکے ہیں۔ تاہم اس ملاقات سے پہلے دونوں ممالک کے بیانات میں نسبتاً نرم لہجہ نظر آیا ہے، جو کسی ممکنہ پیش رفت کی امید دلاتا ہے۔
کریملن کے اعلامیے کے مطابق، ملاقات کا پہلا مرحلہ ون آن ون نشست پر مشتمل ہوگا، جس میں صرف دونوں صدور اور مترجمین شریک ہوں گے۔ اس مرحلے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ نجی مکالمہ کسی بھی بڑے معاہدے یا پیش رفت کا آغاز بن سکتا ہے۔ ماسکو میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پوتن اور ٹرمپ کی ذاتی ہم آہنگی ممکنہ طور پر اس ملاقات کا رخ مثبت سمت میں موڑ سکتی ہے۔
نجی نشست کے بعد اعلی سطحی وفود شامل ہوں گے۔ روسی وفد میںیوری اشاکوف،وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، وزیر دفاع اینڈری بیلوسوف، وزیر خزانہ انٹون سِلویانوف، اور روسی براہِ راست سرمایہ کاری فنڈ کے سربراہ کیرِل دمتریف بھی موجود ہوں گے۔امریکی وفد کی مکمل فہرست ابھی تک جاری نہیں کی گئی، تاہم امکان ہے کہ نائب صدر، وزیر خارجہ، قومی سلامتی کے مشیر اور دیگر کلیدی شخصیات شامل ہوں گی۔ایجنڈا وسیع اور حساس ہے یوکرین تنازع، توانائی کی فراہمی میں استحکام، عالمی تجارتی تعاون، اور انسدادِ دہشت گردی جیسے موضوعات پر بات ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ممکنہ اقتصادی معاہدوں اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر بھی غور متوقع ہے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب دنیا سیاسی اعتبار سے منقسم ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ہیں، جو یوکرین کے مسئلے پر سخت موقف رکھتے ہیں، اور دوسری طرف روس ہے، جو اپنی سلامتی اور علاقائی مفادات کے لیے ایک مختلف حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں الاسکا ملاقات محض دو رہنمائوں کی بات چیت نہیں بلکہ دو عالمی نظریات کا ٹکرائو بھی ہے۔بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایک ہی نشست میں تمام مسائل کا حل ممکن نہیں، لیکن یہ ملاقات تعلقات میں جمی برف پگھلانے کا پہلا قدم ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر یوکرین تنازع میں اگر کسی درمیانی راستے کی بنیاد رکھی گئی تو یہ پیش رفت دنیا کے سیاسی توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ہی ملاقات میں بڑے معاہدے متوقع نہیں، لیکن یہ نشست آئندہ مذاکرات کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ اگر دونوں رہنما یوکرین تنازع میں کسی عبوری حل پر متفق ہو گئے یا توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا عندیہ دیا، تو یہ عالمی معیشت کے لیے بڑی خبر ہوگی۔
مذاکرات کے بعد دونوں صدور کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی متوقع ہے۔ یہ لمحہ اس ملاقات کے اصل نتائج کو دنیا کے سامنے لانے کا ہوگا۔ کیا یہ نشست ایک نئے باب کا آغاز کرے گی یا پھر رسمی بیانات تک محدود رہ جائے گی؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ماسکو میں اس وقت ایک محتاط امید کی فضا ہے۔ یہاں کے سیاسی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پوتن کی سفارت کاری اور ٹرمپ کے کاروباری مزاج کا امتزاج ممکنہ طور پر کسی مثبت پیش رفت کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
آلاسکا کی ٹھنڈی ہوائوں میں آج صرف دو صدور نہیں مل رہے، بلکہ دو صدیوں پر محیط سفارتی ورثہ، دو مختلف سیاسی نظریات، اور دنیا کی امیدیں آمنے سامنے بیٹھی ہیں۔ تاریخ یہ طے کرے گی کہ یہ ملاقات ایک سفارتی موڑ تھی یا محض ایک رسمی تصویر کا موقع۔ لیکن ایک بات یقینی ہے دنیا کی نظریں آج الاسکا پر ہیں، اور ہر لفظ، ہر مصافحہ اور ہر مسکراہٹ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو رہی ہے









