صدر پوتن کے طیارے کی سیکیورٹی کو خطرہ بتانا پولینڈ کی دہشت گرد سوچ ہے، روسی وزیرِ خارجہ

ماسکو (وائس آف رشیا) روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ پولینڈ کے وزیرِ خارجہ رادوسلاو سِکورسکی کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے طیارے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی دھمکی اس بات کا ثبوت ہے کہ پولینڈ خود دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لیے تیار ہے۔

یہ بیان لاوروف نے اپنے ایتھوپیائی ہم منصب گیڈیون تیموتھیوس کے ساتھ مذاکرات کے بعد نیوز کانفرنس میں دیا۔

لاوروف نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ مسٹر سِکورسکی نے کہا ہے کہ اگر صدر پیوٹن بوداپیسٹ میں ممکنہ روس–امریکہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پولینڈ کی فضائی حدود سے گزریں تو ان کے طیارے کی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ براہِ راست دہشت گردی کی دھمکی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولینڈ ایسے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔”

سرگئی لاوروف نے امریکی میڈیا کی رپورٹس پر حیرت ظاہر کی جن میں کہا گیا تھا کہ پیوٹن–ٹرمپ سربراہی اجلاس مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا امریکی میڈیا نے رپورٹ دی کہ میری کل امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو سے بات چیت کے بعد بعض حکام نے کہا کہ روسی مؤقف میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ مغربی میڈیا کی غلط روایت کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اصل توجہ مقام یا تاریخ پر نہیں بلکہ ان بنیادی معاملات پر ہونی چاہیے جن پر انکوریج (Anchorage) میں صدر پوتن اور ٹرمپ کے درمیان اتفاق ہوا تھا۔

انہوں نے زور دیا کہ روس کا مؤقف الاسکا (Anchorage) میں طے شدہ مفاہمت کے مطابق ہی ہے میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ روس نے اپنا مؤقف نہیں بدلا۔ جو باتیں پوتن اور ٹرمپ کے درمیان الاسکا مذاکرات میں طے ہوئیں، ہم آج بھی ان ہی اصولوں پر قائم ہیں۔”

روسی وزیرِ خارجہ کے مطابق یورپی ممالک کا یہ مطالبہ کہ جنگ بندی کو امن معاہدے کی بنیاد بنایا جائے، الاسکا میں طے پانے والے نکات کے برعکس ہے

یہ نقطۂ نظر ان باتوں کے خلاف ہے جن پر پیوٹن اور ٹرمپ نے اتفاق کیا تھا — یعنی تنازعے کی جڑ تک پہنچنا، نہ کہ عارضی جنگ بندی پر اکتفا کرنا۔”

لاوروف نے کہا کہ روس کی خصوصی فوجی کارروائی اپنے اہداف کے حصول کے قریب ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن اپنے تمام اہداف کامیابی سے حاصل کرے گا۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یورپی ممالک یا ولادیمیر زیلینسکی فوری جنگ بندی پر اصرار کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ یوکرین کا ایک بڑا حصہ نازی نظام کے زیرِ قبضہ رہ جائے گا، جبکہ اصل ضرورت اس نظام کی جڑ ختم کرنے کی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں