دوشنبے (وائس آف رشیا) کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اعتراف کیا ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر مذاکرات کا سلسلہ تقریباً مکمل طور پر رک چکا ہے۔
پیسکوف نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’استنبول مذاکرات کے بعد سے جاری بات چیت میں ایک نمایاں وقفہ آ چکا ہے، مذاکرات کا تسلسل بری طرح متاثر ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ یوکرین کی جانب سے مجوزہ دستاویزات پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا گیا، جس کے باعث ’’پیش رفت مکمل طور پر جمود کا شکار ہے‘‘۔
یاد رہے کہ 23 جولائی کو استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے تیسرے دور کا انعقاد ہوا تھا، جس میں دونوں ممالک نے فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں کے تبادلے پر اتفاق کیا تھا۔ روس نے اس موقع پر تین آن لائن ورکنگ گروپس کے قیام کی تجویز بھی دی تھی، جو سیاسی، عسکری اور انسانی بنیادوں پر امور کا جائزہ لیتے۔
مذاکرات کے دوران روس نے یوکرین کو اپنے تین ہزار فوجیوں کی لاشیں واپس کرنے اور محاذِ جنگ پر انسانی بنیادوں پر عارضی جنگ بندی کی پیشکش بھی کی تھی۔
روسی صدر کے مشیر ولادیمیر میدنسکی، جو یوکرین کے ساتھ مذاکراتی عمل میں روسی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’چوتھے دور کے مذاکرات کا فیصلہ انہی معاہدوں کے نفاذ کے بعد کیا جائے گا۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ تعطل خطے میں سفارتی عمل کے مزید کمزور ہونے کا اشارہ ہے، جب کہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان رابطوں کی کمی عالمی امن کے لیے تشویشناک سمجھی جا رہی ہے۔









