دنیا گہرے تغیرات سے گزر رہی ہے، اقوام متحدہ کے اصولوں پر عمل وقت کی اہم ضرورت ہے، لاوروف

نیو یارک (وائس آف رشیا) روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا ایک “گہرے تغیر” کے دور سے گزر رہی ہے، جہاں ایک طرف کثیر قطبی عالمی نظام ابھر رہا ہے اور دوسری طرف چند ممالک یک قطبی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے نوآبادیاتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔

لاوروف نے یورپی یونین اور نیٹو کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ روس کبھی شہری اہداف کو نشانہ نہیں بناتا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پولینڈ میں ڈرون گرنے کے بعد ماسکو نے مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کی، لیکن مغربی ممالک نے بات چیت سے گریز کیا۔

ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ مغرب نے ایران کو ایک “پھندے” میں پھنسا رکھا ہے اور نئے اقتصادی دباؤ اور ممکنہ فوجی اقدامات سے اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق روس اور چین نے معاہدے کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی مگر مغربی دباؤ نے اسے ناکام بنا دیا۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے لاوروف نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مکالمہ دوبارہ شروع ہوا ہے، جو مثبت پیش رفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں مفادات میں مطابقت ہو وہاں مشترکہ منصوبوں پر کام کیا جائے گا، اور جہاں اختلاف ہو وہاں تصادم سے بچنا سب سے اہم ہے۔

فلسطین کی صورتحال پر ایک سوال کے جواب میں لاوروف نے کہا کہ غزہ میں اجتماعی سزا کے اقدامات عالمی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ عرب اور مسلم ممالک کو عملی اقدامات کی قیادت کرنی چاہیے، اور روس اس عمل میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔

روس آئندہ ماہ سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالے گا، جس میں ڈےٹن معاہدے پر عملدرآمد اور اقوام متحدہ کے قیام کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اصولوں پر بحث شامل ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں