ماسکو(وائس آف رشیا) روسی صدارتی ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ یورپ کی ایک “جنگی جماعت” یوکرین تنازع کے سیاسی حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیسکوف نے کہا کہ یورپی لیڈروں کا رویہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن اقدامات سے یکسر متضاد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ”یورپی ممالک امن کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور یہ ان کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ روس کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔”
خیال رہے کہ برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کئی ماہ سے یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ اگر کیف اور ماسکو کسی جنگ بندی یا امن معاہدے پر پہنچتے ہیں تو نیٹو افواج کو “امن فوج” کے طور پر یوکرین بھیجا جا سکتا ہے۔ ماسکو نے اس امکان کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین میں کسی بھی شکل میں نیٹو کی موجودگی ناقابل قبول ہے۔
پیسکوف کے مطابق بعض نیٹو رکن ممالک یوکرین کو روس کے ساتھ بامقصد مذاکرات سے دور رکھ رہے ہیں، لیکن یہ حکمت عملی “کیف حکومت کے لیے کسی طور فائدہ مند نہیں ہوگی۔”
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی گزشتہ ہفتے یورپی ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ “یورپی ممالک یوکرین میں امن نہیں چاہتے۔”
ادھر فرانسیسی صدر میکرون نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور متعدد یورپی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا تھا کہ یورپ کو “زمینی فوجی کردار” ادا کرنا پڑے گا۔
تاہم جرمنی، اٹلی، پولینڈ، اسپین، رومانیہ اور کروشیا پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی ایسی مشن میں شامل نہیں ہوں گے۔
امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق یورپی یونین کی ایک بڑی آبادی بھی اپنی افواج کو یوکرین بھیجنے کے سخت خلاف ہے اور وہ ایسے کسی اقدام کو خطرناک سمجھتی ہے۔









