بیلاروس کے نام پر کروڑوں کی کمائی—پاکستان میں ایجنٹس 20–25 لاکھ روپے لے کر “ورک ویزہ” دلوانے کے دعوے

ماسکو(وائس آف رشیا) پاکستان میں درجنوں ریکروٹمنٹ ایجنٹس بیلاروس کے مبینہ “ورک ویزہ پیکج” کے نام پر شہریوں سے 18 سے 25 لاکھ روپے تک وصول کر رہے ہیں، جبکہ سرکاری سطح پر عام پاکستانیوں کے لیے کوئی مکمل اور نافذالعمل ورک ویزہ اسکیم تاحال موجود نہیں۔ حکومتِ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان اپریل 2025 میں مہارت یافتہ پاکستانی افرادی قوت کی برآمد سے متعلق سمجھوتۂ یادداشت (MoU) پر دستخط ہوئے تھے، مگر اس کے عملی طریقۂ کار (فریم ورک) اور سرکاری چینلز ابھی پوری طرح وضع نہیں ہو سکے—جس خلا سے فائدہ اٹھا کر ایجنٹس بھاری رقوم بٹور رہے ہیں۔

متاثرہ شہریوں کے مطابق ایجنٹس “فوری ورک پرمٹ”، “کم کاغذی کارروائی” اور “تیز رفتار ویزہ” کے دعووں پر ایڈوانس رقوم لیتے ہیں، مگر اکثر صورتوں میں یا تو جعلی کنٹریکٹ اور دعوت نامے دیے جاتے ہیں یا درخواستیں طویل عرصہ زیرِ التوا رہتی ہیں۔ مقامی اور سوشل میڈیا پر حالیہ ہفتوں میں بیلاروس جاب اسکیم کے عنوان سے متعدد رپورٹس اور ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں “MoU” کے نام پر لوگوں کو متاثر کرنے کی شکایات سامنے آئیں۔

حکومتی ریکارڈ کے مطابق اسلام آباد اور منسک کے درمیان فی الوقت ویزہ چھوٹ صرف سفارتی اور سرکاری پاسپورٹس کے حامل افراد کے لیے ہے؛ عام پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے یہ سہولت نہیں۔ اسی طرح بیلاروس کی وزارتِ خارجہ نے مارچ 2025 سے ای ویزہ کا آپشن کھولا ضرور ہے، مگر یہ سیاحتی/مختصر مدتی اندراج کے لیے ہے—مستقل روزگار کے لیے آجر (employer) کی طرف سے قانونی ورک پرمٹ اور کنٹریکٹ لازم ہیں۔

کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ جولائی اور اگست میں “1.5 لاکھ پاکستانی ہنر مند کارکنان بیلاروس جائیں گے” جیسے بیانات نے مارکیٹ میں “سنہری موقع” کا تاثر پیدا کیا، مگر اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو/بی ای اینڈ او ای (BE&OE) کے واضح فریم ورک کے بغیر غیر شفاف لین دین بڑھ گیا۔ ذرائع کے مطابق متعلقہ اداروں نے بڑے پیمانے پر افرادی قوت کی تعیناتی کے لیے ابھی تک قواعد، سیفٹی ایڈوائزری یا اسکریننگ میکانزم جاری نہیں کیا۔

حکومتی ملاقاتیں اور MoU—حقیقت کیا ہے؟
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ منسک (اپریل 2025) کے دوران متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جن میں افرادی قوت سے متعلق تعاون بھی شامل تھا۔ بعد ازاں اگست 2025 میں اعلیٰ سطحی بیلاروسی وفد کی اسلام آباد میں ملاقاتوں کے دوران حکومت نے اعلان کیا کہ “پاکستانی ہنرمندوں کی برآمد کی راہ ہموار ہو گئی ہے”—تاہم یہ اب بھی سمجھوتہ ہے، جامع عملدرآمد پالیسی نہیں۔

متوقع فراڈ کے سگنلز
امیگریشن ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل اشارے ممکنہ فراڈ کی طرف لے جاتے ہیں:
غیر رجسٹرڈ یا نامعلوم لائسنس کے ساتھ ریکروٹمنٹ؛
آفیشل فیس کے بجائے لاکھوں روپے کی کیش ڈیمانڈ؛
آجر کے کنٹریکٹ اور بیلاروس کے ایمپلائر رجسٹری سے تصدیق نہ کرانا۔
ملکی و غیرملکی مشاہدہ جاتی رپورٹس اور آن لائن رہنماؤں نے بھی انھی خطرات پر تنبیہ کی ہے۔

قانونی طریقہ کیا ہے؟
بیلاروس کا ورک ویزہ صرف سفارت خانہ/قونصلیٹ جاری کرتا ہے، اور اس کے لیے مقامی آجر کی طرف سے جاری شدہ ورک پرمٹ/کنٹریکٹ بنیادی دستاویز ہے۔ ای ویزہ سیاحت/مختصر قیام کے لیے ہو سکتا ہے، کام کے لیے نہیں۔

“ویزا فری” رعایت صرف سفارتی و سرکاری پاسپورٹس پر لاگو ہے—عام شہریوں کے لیے نہیں۔

سابق افسران کا کہنا ہے کہ جب تک حکومتِ پاکستان سرکاری آجر رجسٹری، ویکینسی لسٹنگ، ویزہ کوٹہ، انشورنس/سیفٹی پروٹوکول اور فیس شیڈول واضح نہیں کرتی، اس خلا میں اوورچارجنگ اور جعلی آفر لیٹرز بڑھتے رہیں گے۔

متاثرین کو کیا کرنا چاہیے؟
کسی بھی ادائیگی سے پہلے بی ای اینڈ او ای کی رجسٹرڈ کمپنی/پروموٹر لسٹ، اور بیلاروس کے آجر/کنٹریکٹ کی آزادانہ تصدیق کریں۔

کیِش لین دین اور بغیر رسید ادائیگی سے گریز کریں؛ بینکنگ چینل استعمال کریں۔

جعلی کنٹریکٹ یا رقوم ہتھیانے کی شکایت متعلقہ پاکستانی حکام (FIA/اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو) اور بیلاروس کے قونصلر مشن کو دیں۔

بیلاروس کے نام پر “فوری ورک ویزہ” کی پرکشش پوسٹنگز اور MoU کی سرخیوں نے عوام میں امید تو بڑھائی ہے، مگر واضح سرکاری طریقۂ کار کے بغیر مارکیٹ میں 20–25 لاکھ روپے تک کے غیر معمولی “پیکجز” نے استحصال کے راستے کھول دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت دونوں طرف—اسلام آباد اور منسک—میں شفاف، مرحلہ وار پالیسی اور آجر-امیدوار ویرفیکیشن پلیٹ فارم کے اجرا سے ہی اس رجحان پر قابو پا سکتی ہے۔ تب تک شہریوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایجنٹس کے غیر معمولی دعووں اور کیش ڈیمانڈز سے ہوشیار رہیں اور ہر قدم پر سرکاری تصدیق کے بغیر کوئی ادائیگی نہ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں