ماسکو (وائس آف رشیا) روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ روس اور چین کے تعلقات آج ہر میدان میں اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ وہ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کو دیے گئے ایک تحریری انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
صدر پوتن نے کہا کہ روس-چین شراکت داری عالمی سیاست، معیشت، توانائی، ثقافت اور کھیل سمیت ہر شعبے میں ایک “اسٹیبلائزنگ فورس” کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ان کے بقول دونوں ممالک کے درمیان تجارت تقریباً مکمل طور پر روبل اور یوان میں ہو رہی ہے جبکہ ڈالر اور یورو کی حصہ داری محض شماریاتی سطح پر رہ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2019 سے آپریشنل ’پاور آف سائبیریا‘ پائپ لائن کے ذریعے چین کو 100 ارب مکعب میٹر سے زائد گیس فراہم کی جا چکی ہے، جب کہ 2027 میں “فار ایسٹرن روٹ” نامی نئی گیس لائن شروع کی جائے گی۔
پوتن نے کہا کہ 2026 اور 2027 کو دونوں ممالک کے درمیان “ایجوکیشن کے سال” قرار دیا جائے گا، جس سے نوجوان نسلوں کو قریب لانے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ فلم سازی، کھیلوں اور سیاحت کے فروغ کے لیے بھی بڑے منصوبے ترتیب دیے گئے ہیں۔ صرف 2024 میں دو طرفہ سیاحت کا حجم 2.8 ملین افراد تک پہنچ گیا۔
صدر پوتن نے دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین اور چین کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین کی مزاحمت نے سوویت یونین کو نازی ازم کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع دیا۔ انہوں نے بعض یورپی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہاں آج بھی سوویت فوجی یادگاروں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ اصلاحات کے حوالے سے صدر پوتن نے کہا کہ روس اور چین چاہتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک کو نمائندگی دی جائے، تاکہ یہ ادارہ موجودہ عالمی حقائق کی عکاسی کر سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو نیو کالونیل ازم کا ہتھیار بنانے کے بجائے عالمی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔









