پاکستان میں موجود تقریباً 80 ہزار افغان مہاجرین بیرون ملک آباد، 40 ہزار باقی: دفترِ خارجہ

اسلام آباد( وائس آف رشیا) دفترِ خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ رواں ہفتے پاکستان میں موجود تقریباً 80,000 افغان باشندوں کو بیرونِ ملک مختلف ممالک میں آباد کیا گیا جب کہ مزید 40,000 بدستور پاکستان میں موجود ہیں۔

کابل سے 2021 میں امریکی فوجیوں کے انخلاء سے دو عشروں پر محیط جنگ کا خاتمہ ہوا لیکن ایک نیا خروج شروع ہو گیا کیونکہ افغان باشندے طالبان حکومت کی پابندیوں اور واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے پر انتقامی کارروائی کے خوف سے ملک چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ ہزاروں افغان جنہوں نے امریکہ اور یورپی ممالک میں آبادکاری کے لیے درخواستیں دی ہوئی تھیں، وہ ہمسایہ ملک پاکستان میں داخل ہو گئے جہاں وہ ہزاروں کی تعداد میں بدستور قانونی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

غیر منافع بخش #AfghanEvac کے مطابق ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے پناہ گزینوں کے ویزا کی کارروائی کو کم از کم 90 دنوں کے لیے روک دینے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ اس سلسلے میں تازہ ترین دھچکا ہے۔ اس تعطل سے امریکہ میں داخلے کے لیے منظور شدہ 10,000 افغان باشندوں کے لیے ایک نئی زندگی شروع کرنے کا موقع تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ امریکہ میں قائم تنظیم نے کہا کہ زیرِ عمل دسیوں ہزار مزید درخواستیں بھی منجمد کر دی گئی ہیں۔

پاکستان میں موجود افغان شہری جو بیرون ملک آبادکاری کے منتظر ہیں، ان کی تعداد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان شفقت علی خان نے کہا، “میں آپ کو ایک وسیع تعداد بتا سکتا ہوں۔ تقریباً 80,000 کو مختلف ممالک اپنے ہاں دوبارہ آبادکاری کے لیے لے گئے ہیں اور تقریباً 40,000 اب بھی پاکستان میں ہیں۔”

ٹرمپ کے حکم نامے میں کہا گیا، “امریکہ کے پاس بڑی تعداد میں تارکینِ وطن اور خاص طور پر مہاجرین کو جذب کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے” اور اس نے نقلِ مکانی سکیم روک دی ہے جب تک کہ یہ “امریکہ کے مفادات سے ہم آہنگ نہ ہو جائے۔”

لیکن مہم کاروں کا خیال ہے کہ ملک پر افغانوں کا قرض واجب الادا ہے جو امریکی انخلاء کے باعث مصیبت میں پھنسے رہ گئے تھے جس کا ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں وعدہ کیا تھا لیکن اس کی نگرانی ان کے جانشین صدر جو بائیڈن نے کی تھی۔

ان افغانوں کے لیے ایک خصوصی ویزا پروگرام بدستور فعال ہے جو امریکہ یا امریکہ کی طرف سے ملازم تھے۔

لیکن زیادہ وسیع پیمانے پر پناہ گزین سکیم کا انحصار ان درخواست دہندگان پر تھا جن میں سابق افغان فوجیوں اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے ملازمین کے ساتھ ساتھ ان کے افرادِ خانہ شامل ہیں۔

کابل میں امریکہ کا سفارت خانہ بند ہو جانے کے بعد کئی لوگوں نے کاغذی کارروائی کرنے، انٹرویو لینے اور جانچ پڑتال کے لیے ہمسایہ ملک پاکستان کا سفر کیا۔

خان نے پاکستان کی طرف سے امید ظاہر کی کہ امریکہ اپنا پناہ گزین پروگرام دوبارہ شروع کرے گا تاکہ بقیہ افغان مہاجرین “امریکی حکومت کے وعدوں کے مطابق” دوبارہ آباد ہو سکیں۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ امریکہ غیر ملکی ترقیاتی امدادی پروگرام دوبارہ شروع کر دے گا جنہیں ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے کم از کم 90 دنوں کے لیے معطل کر دیا ہے۔

اسلام آباد نے 2023 میں ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر دستاویزی افغانوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک وسیع مہم کا اعلان کیا تھا جس میں انہیں ملک چھوڑنے یا گرفتاری کا سامنا کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے تھے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2023 کے بعد سے کم از کم 800,000 افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

لیکن منتقلی کے منتظر افغانوں نے پاکستانی حکام کی طرف سے وسیع پیمانے پر ہراسگی کی اطلاع دی ہے جبکہ وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں