واشنگٹن/برسلز(وائس آف رشیا) امریکی میڈیا بلومبرگ کے مطابق امریکہ اپنے جی سیون اتحادیوں پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ روسی ریاستی اثاثے ضبط کرنے کے لیے قانونی فریم ورک تیار کریں اور انہیں یوکرین کی مالی امداد کے لیے استعمال کریں۔
یاد رہے کہ مغربی ممالک نے 2022 میں یوکرین تنازع کے بعد روس کے تقریباً 300 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کیے تھے، جن میں سے تقریباً 200 ارب یورو برسلز میں قائم کلیئرنگ ہاؤس “یوروکلئیر” میں موجود ہیں۔ ان اثاثوں سے اربوں یورو کا منافع بھی حاصل ہوا ہے، جسے مغرب پہلے ہی یوکرین کے لیے استعمال کرنے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔ گزشتہ سال جی سیون نے 50 ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دی تھی جس کی واپسی ان اثاثوں کے منافع سے ہونی تھی، جبکہ یورپی یونین نے 21 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی تجویز کے مطابق اس بار منجمد اثاثوں کو براہ راست ضبط کر کے یوکرین کو منتقل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی حکام نے اس حوالے سے یورپی اتحادیوں سے بات چیت بھی کی ہے۔
تاہم یورپی یونین کے کچھ رہنما اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اثاثوں کی براہِ راست ضبطی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور عالمی مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ ماسکو پہلے ہی ان اقدامات کو “ڈاکہ زنی” قرار دے چکا ہے اور خبردار کیا ہے کہ یہ مغرب کے خلاف الٹا اثر ڈال سکتے ہیں۔
بلومبرگ کے مطابق امریکی منصوبے میں صرف اثاثوں کی ضبطی ہی نہیں بلکہ چین اور بھارت پر 50 سے 100 فیصد ٹیریف لگانے، روسی توانائی کی برآمدات کو محدود کرنے، اور روسی “شیڈو فلیٹ” آف آئل ٹینکرز، کمپنی روسنیفٹ، سمندری انشورنس، علاقائی بینکوں اور دفاعی شعبے سے جڑی کمپنیوں پر پابندیاں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روسی اسپیشل اکنامک زونز میں مصنوعی ذہانت (AI) اور فِن ٹیک خدمات پر بھی قدغن لگانے کی تجویز ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں کہا کہ روس پر “بہت سخت پابندیاں” عائد کی جائیں گی، جن میں بینکاری، تیل اور ٹیریف کے حوالے سے اقدامات شامل ہوں گے۔
کریملن کا کہنا ہے کہ ماسکو اور کیف کے درمیان براہِ راست مذاکرات ممکن ہیں، تاہم اس وقت معطل ہیں۔