فرانس میں حکومت مخالف احتجاج شدت اختیار کر گیا، 200 مظاہرین گرفتار

پیرس (وائس آف رشیا) فرانس میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج اور ہڑتالوں نے شدت اختیار کر لی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ تک افراد کے مظاہروں میں شریک ہونے کا امکان ہے، جب کہ اب تک 200 مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

احتجاج کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب سابق وزیرِاعظم فرانسوا بایرو نے قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ کھو دیا اور 9 ستمبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے سرکاری تعطیلات ختم کرنے اور کفایت شعاری اقدامات کے ذریعے 44 ارب یورو اکٹھا کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جس نے عوامی غصہ مزید بھڑکا دیا۔ ایلیزے پیلس نے سابق وزیرِ دفاع سباستیان لیکورنیو کو نیا وزیرِاعظم مقرر کر دیا ہے۔

وزارتِ داخلہ نے امن و امان قائم رکھنے کے لیے 80 ہزار پولیس اور جینڈرمری اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔ اہم سرکاری عمارتوں کے گرد سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے، خاص طور پر ایلیزے پیلس اور سینیٹ کے دفتر کے باہر۔

اب تک کی صورتحال کے مطابق:
پیرس اور اس کے مضافات میں 132 افراد سمیت 200 مظاہرین گرفتار کیے گئے۔

دارالحکومت میں چھوٹے گروپ سڑکوں اور ٹرام لائنوں کو کچرے اور تعمیراتی ملبے سے بلاک کر رہے ہیں۔

رینس کے قریب مظاہرین نے ایک بس کو آگ لگا دی، جس کے باعث ٹریفک جام ہو گیا۔

تولوز اور بورڈو کے درمیان ریل سروس متاثر ہوئی کیونکہ مظاہرین نے ریلوے پاور کیبلز کو آگ لگا دی۔

لیون میں پولیس نے مظاہرین کو اسٹیشن کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

وزیرِ داخلہ برونو ریٹایو نے اعلان کیا ہے کہ پولیس کو سخت ہدایات دی گئی ہیں کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ اس وقت تک ملک بھر میں 154 ریلیوں میں 5,400 سے زائد افراد شرکت کر چکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں