نیپال میں حکومت مخالف مظاہرے خونی تصادم میں بدل گئے، 22 ہلاک، وزیراعظم مستعفی

نئی دہلی (وائس آف رشئا) نیپال میں حکومت مخالف مظاہرے خطرناک صورت اختیار کر گئے ہیں جہاں مظاہرین نے دارالحکومت کٹھمنڈو سمیت کئی شہروں پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق جھڑپوں میں کم از کم 22 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق مظاہرین نے نئے انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کے روز شروع ہونے والے ان مظاہروں نے منگل کو شدید تشدد کی شکل اختیار کر لی۔ وزیراعظم شرما اولی نے استعفیٰ دے دیا جبکہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور پراسیکیوٹر آفس سمیت متعدد سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم جھالا ناتھ کھنل کی اہلیہ بھی ایک حملے میں جاں بحق ہو گئیں جب مظاہرین نے ان کے گھر کو آگ لگا دی۔

اہم واقعات:

صدر رام چندر پاؤڈل اور مستعفی وزیراعظم شرما اولی کو فوج نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کیا۔

مظاہرین نے نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ بشنو پرساد پاؤڈل، وزیر خارجہ ارزو رانا دیوبا اور سابق وزیراعظم شیر بہادر دیوبا پر بھی حملے کیے۔

مظاہرین نے دارالحکومت کے سنگھہ دربار پیلس سمیت کئی رہائشی مکانات اور ایئرلائن کے دفاتر کو آگ لگا دی۔ بھیرہوا میں گوتم بدھ انٹرنیشنل ایئرپورٹ بھی نذرِ آتش کر دیا گیا۔

مغربی نیپال کی جیلوں پر حملوں کے نتیجے میں تقریباً 1,500 قیدی فرار ہو گئے۔

مظاہرین نے “جنریشن زی ریولوشن” کے نام سے تحریک شروع کی، جو حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس پر عائد پابندی کے خلاف تھی۔

سیاسی پیش رفت:
وزیراعظم اولی کے استعفے کے بعد مظاہرین نے کٹھمنڈو کے میئر بالینڈر شاہ کو قائم مقام وزیراعظم بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق وزیر داخلہ رامیش لکھک نے بھی احتجاجی تشدد کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔ تاہم صدارتی دفتر نے صدر کے استعفے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

نیپالی فوج کے چیف آف اسٹاف اشوک راج سگدل قوم سے خطاب کریں گے۔ اس دوران حکومت نے عوامی دباؤ کے بعد سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں